بلوچ تحریک اور لیڈرشپ کا سوال – شہیک بلوچ

289

بلوچ تحریک اور لیڈرشپ کا سوال

تحریر: شہیک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

انسانی تاریخ کے ارتقائی مراحل میں تہذیب کے تشکیل کو لے کر جن پانچ اہم عوامل کی نشاندہی ول ڈیورانٹ نے کی ہے، ان میں سیاست کو اہم مرتبہ حاصل ہے۔ سیاست کے میدان میں سیاسی اداروں کی نشوونما کے حوالے سے مرکزی کردار لیڈرشپ کا ہوتا ہے، لیڈرشپ سیاست میں نیوکلیس کا کردار ادا کرتے ہوئے سیاسی عمل کو کنٹرول میں رکھتا ہے۔

لیڈرشپ کے سوال پر مختلف پہلووں سے تحقیق کی جاسکتی ہے۔ انفرادی اوصاف سے لے کر اجتماعی فیصلوں کے نفسیاتی پہلووں پر بات کیا جاسکتا ہے۔

لیڈر کو منفرد رکھنے والی خصوصیات کیا ہیں؟
لیڈر کی انفرادی خصوصیات دوراندیشی، معاملہ فہمی، تعلقات قائم کرنا اور انسانی وسائل کا بہترین دانشمندانہ استعمال۔ اسی طرح فیصلہ کن کردار بن کر مسائل پر قابو پانا اور سیاسی قوت کو غلط سطح پر استعمال ہونے سے روکنا بھی لیڈر ہی کی کوالٹی ہے۔

حالات کا صحیح اندازہ لگانا، زمینی حقائق کو تسلیم کرنا اور پارٹی سطح پر تعلقات کے بہتر طریقے سے بنائے رکھنا کامیابی کے لیے لازمی ہے۔ لیڈر اپنے مثبت منفرد کردار کے باعث ہی وہ کرشماتی پہلو رکھتا ہے، جہاں عام ذہن لیڈ کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتا ہے۔ وہ دوسروں کی رویوں پر اپنی رائے قائم نہیں کرتا بلکہ راہ عمل پر چل کر مثال قائم کرتا ہے۔ جہاں مسائل ہوں وہاں ان کو حل کرنے کی ترکیب لیڈرشپ کا کام ہوتا ہے۔ اگر مسائل کی موجودگی میں مزید پیچیدگیاں ہوں تب اس کا واضح مطلب لیڈرشپ کا فقدان ہے۔

لیڈر مسائل کو اس حد تک خراب ہونے نہیں دیتا جہاں بحرانی کیفیت پیدا ہو، لیڈر کا مقصد ہی بحرانی کیفیت سے نکالنا ہوتا ہے۔ وہ الجھن سے سلجھن کی راہ کو ہموار کرتا ہے، وہ بحران سے نکالتا ہے۔ وہ مایوسی کو توڑ کر امید جگاتا ہے۔ لیڈرشپ ہی سیاست کو نشوونما دیتا ہے۔ سیاسی کلچر میں نکھار پیدا ہوتا ہے۔ ہم اپنے سماج کو لے کر جب سیاسی عمل میں لیڈرشپ کو ڈھونڈتے ہیں تب ہمیں ایک خلاء نظر آتا ہے۔

ایک لمبے دورانیہ کے باوجود بلوچ لیڈرشپ سے محروم ہے۔ جو لیڈ کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے انہوں نے خود کو پیچھے رکھا اور جو آگے آئے وہ اس صلاحیت سے محروم تھے۔

جن پر بلوچ قوم کی نظریں براجمان تھیں کہ وہ مشکل حالات میں لیڈر بن کر قوم کی رہنمائی کرینگے وہ صرف قبائلی سردار ہی ثابت ہوئے، جنہوں نے اپنے قبائلی مزاج و رویوں کے باعث مزید الجھنیں پیدا کیں۔

ذرا تصور کریں جو قوت بلوچ قومی جہدکاروں کی صورت میں ان شخصیات کو حاصل ہوئی جواب میں انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا کس حد تک مثبت استعمال کیا؟
تحریک کو درپیش کوئی ایک مسئلہ جو انہوں نے حل کرنا تو دور حل کرنے کی کوشش بھی کی؟
آج بلوچ جہدکار سے لے کر عام نوجوان تک یہ سوال اہم ہے کہ کیا واقعی لیڈرشپ ایسی ہوتی ہے؟
قومی جدوجہد میں جب اتحاد کی ضرورت محسوس ہوئی تب اپنے قد کو بڑھانے کے لیے کردار کشی کا سلسلہ شروع کیا گیا، باقی سب خراب تھے تو پھر اتحاد کی گنجائش کس کے ساتھ باقی رہ جاتی ہے؟
کیا یہ سنجیدہ سیاسی رویے تھے جو ہمیں یہاں تک لائے؟

آج یہ بات بالکل واضح ہے کہ بلوچ جہدکار کی سطح پر کوئی اختلاف نہیں، اختلاف صرف قبائلی شخصیات کے سطح پر تھے۔ بلوچ قومی تحریک کو بحران سے روکنے کے لیے بلوچ جہدکار ایک ہوگئے، انہوں نے مسائل بھی حل کرلیے اور اتحاد بھی قائم کرلیا لیکن قبائلی شخصیات کی ملاقاتوں کا ماحصل یہ تھا کہ کسی نہ کسی طریقے سے بلوچ جہدکاروں کے اتحاد کو روکا جاسکے۔

جتنی بڑی غلطیاں قبائلی رہنماوں نے کی اس سے بڑھ کر بڑی قربانیاں دے کر بلوچ جہدکار اس مایوسی کو توڑ رہے جو غیر سیاسی و غیر سنجیدہ رویوں کے باعث جنم لے چکی ہیں۔

قبائلی شخصیات کے غیر سنجیدہ فیصلوں نے بلوچ جہدکاروں کو مجبور کردیا کہ وہ انہیں مسترد کرتے ہوئے تحریک کے ازسر نو صف بندی پر سنجیدگی سے کام کرے اور آج فرق قوم کے سامنے ہے۔

افسوسناک امر یہ ہے کہ دن بہ دن قبائلی شخصیات مزید غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے جارہے ہیں اور آج نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ بلوچ قومی تحریک میں کسی بھی معاملے کو لے کر وہ کوئی بھی سنجیدہ کردار ادا کرنے سے خود کو محروم کرچکے ہیں۔

بلوچ قومی تحریک کی جانب سے ملنے والی قوت کا اگر صحیح سمت میں استعمال کیا جاتا اور بلوچ جدوجہد کو مثبت رخ فراہم کیا جاتا تو شاید آج بلوچ کرد جیسی قوت بن کر مزید بہتر طریقے سے نوآبادیاتی نظام کے خلاف برسرپیکار ہوتا لیکن آج بھی اپنے محدود سرکلز میں اپنے قد کو بڑا دیکھ کر اس بات کو فراموش کیا جارہا ہے کہ کل تحریک میں ان کے لیے کوئی گنجائش باقی نہ ہوگی۔

تمام دوستوں کے لیے ایک سوال یہ بھی ہے کہ وہ مکران میں قومی تحریک کا جائزہ لیتے ہوئے دیگر علاقوں سے اگر موازنہ کریں تو جن حالات و ذرائع کیساتھ مکران میں تحریک نے شروع ہوکر پھیلنا شروع کیا وہی کوہلو کاہان سے لے کر ڈیرہ بگٹی میں آج کیا صورتحال ہے؟

کسی بھی سطح کے مسائل ان علاقوں میں کیا حل ہوئے؟

مکران میں بی ایل ایف نے جس طرح سے ریاستی بربریت اور اندرونی پروپیگنڈہ کا مقابلہ کیا اس کے باوجود آج مزید منظم صورت سمیت اتحاد و یکجہتی کیا لیڈرشپ کے سنجیدہ ہونے کی علامت نہیں؟

دوسری جانب ابتدائی کھٹن مراحل میں قومی تنظیم کی تشکیل دینے سے لے کر از سر نو صف بندی و ادارہ سازی کا مطالبہ کرنے پر دیوار سے مارنے کی کوشش کو کیا نام دیا جائے؟

کسی بھی معاملے میں ذرا سی لچک کا مظاہرہ کرنے کی بجائے اوقات یاد دلانے کی باتیں کسی لیڈر شپ کا کرشمہ نہیں بلکہ روایتی فرسودہ سوچ و عمل کا شاخسانہ ہے۔

اگر آپ سنجیدہ ہوتے تو آج بلوچ قومی تحریک بالخصوص قومی تنظیم یوں ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہ بنتیں، کبھی مڈی کے نام پر تو کبھی ڈسپلن کے نام پر بلوچ جہدکاروں کے عزت نفس کو مجروح کرنا کس قدر افسوسناک عمل ہے۔

لیکن ایک بات طے ہے کہ بلوچ قومی جدوجہد اپنے لیڈر کا تعین کرچکا ہے، بلوچ کا لیڈر وہی ہے جو لیڈ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اپنے ذات، خاندان و قبیلہ سے بالاتر ہوکر قومی سوچ رکھتا ہے۔ جو الجھن سے سلجھن تک بلوچ کو پہنچائے۔

اب بلوچ جہدکار کسی بھی قبائلی مزاج کا ایندھن نہیں بنیں گی بلکہ وہ اس جدوجہد کو انقلابی سیاسی اصولوں کے تحت جاری رکھتے ہوئے مزید منظم کرینگے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔