عطاء شاد – انور اسلم بلوچ

1402

عطاء شاد

تحریر: انور اسلم بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کوئی قوم اپنے ان عظیم ہستیوں کو کبھی بھلا نہ پائے گی، جنہوں نےاپنی ساری زندگی اپنے وطن و قوم کے لیئے بسر کی ہو اور اپنی تمام تر صلاحیتیں اور توانائیں قوم و وطن کے لیئے صرف کی ہو۔ دنیا کے ہر قوم کا ایک شاعر ہوتا ہے، اس طرح سید ظہور شاہ ہاشمی اور عطا شاد ہمارے قومی شاعر ہیں۔ چونکہ میرا مضمون عطا شاد کی شاعری اور شخصیت پر ہے، مگر جب بلوچستان کے شعراء پہ بحث ہوتی ہے تو ظہور شاہ ہاشمی کانام ضروری آتا ہے۔

جہاں تک عطا شاد کے بارے میں میری سوچ اور میری رائے ہے تو میں کہتا ہوں کہ عطا شاد آفاقی شعراء میں شمار کئے جاتے ہیں اور کسی قوم، ملک اور زبان کا آفاقی شاعر خواہ ، عطا ہو غالب یا اقبال ہوں کسی ایک ملک یا قوم کا شاعر نہیں ہوتا وہ ساری دنیا کی توقیر کا مستحق ٹہرتا ہے، کہتے ہیں کہ شاعر حقیقت کا شعور ہے، وہ حقیقت کے پہلو بہ پہلو ایک تخلیقی دنیا کی تعمیر کرتا ہے، جس میں اس کی تمنائیں، خواہشیں، خواب اور وجود کی ساری رعنائیاں رقص کناں ہوتی ہیں، خوف اندیشی اور موت کے سائے اسکے رنگ آگہی کو زیادہ گہرا کردیتے ہیں شاعری اپنی حدود کا خود تعین کرتی ہے۔

بڑا شاعر اپنے ساتھ زبان اور خیال کی وسیع دنیا لے کر آتا ہے، عرض کیا گیا کہ عطا شاد کے ہاں فکر کی گہرائی جذبے کی شدت، احساس کی تازگی، تخیل کی نذرت اور شاعرانہ تجربے کی وسعت نظرآتی ہے، عطا شاد کی شاعری میں جابجا فکر کے اجرا بکھرے پڑے ہیں ان کا ذہن خوبصورت دلپذیر اور بامعنی مثالوں کا خزانہ تھا یہ تمنائیں نادر بھی اور رنگین بھی ہیں۔

عطاء کی شاعری نسل در نسل کے لیے ہے، اگر جس شخص نے اس سے ناطہ جوڑا لیکن کوئی ان کے آس پاس بھی پھنک نہیں سکا ادبی و تخلیقی نقطہ نظر سے ہمیں عطاءشاد جیسی شخصیات کم نظر آتی ہیں عطا ءاردو اور بلوچی شاعری میں نیا عہد بن کر آئے ان کی شاعری اور مضامین و ڈرامے ہمارے بیش بہاادبی اور معاشرتی ورثہ ہیں، عطاء شاد کی شاعری کا اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو میں محسوس کرتا ہوں کہ عطاء شاد کی شاعری میں عکس بلوچستان ہے، جسں نے بلوچستان نہیں دیکھا ہو بلوچستان کے نیلے سمندر اور وادیاں نہیں دیکھی ہوں، جس نے ، شال ، بولان ، چلتن نہیں دیکھا ہو، جس نے چلتن بولان کی چوٹیوں پر جمی برف کو پگھلتے ہوئے دیکھنا ہو، جس نے شال کے برف پوش موسم کو نہیں دیکھا اور جس نے بلوچستان کے پہاڑو پھوٹتے چشموں اور آبشاروں کو نہیں دیکھا ہو تو وہ عطاءشاد کی شاعری کا مطالعہ ضرور کرے اور بلوچستان کا عکس دیکھیں، عطاء شاد نام تھا بلوچستان کا اور بلوچستان نام ہے عطاء کا وہ ناز کرتے تھے اپنی سرزمین اپنی سرزمین برادر سرزمین ناز کرتی ہے ان پر انکی وطن دوستی اور قوم پرستی ان کے شعروں میں جابجا ملتی ہے۔

عطاء شاد ایک شاعر کے علاوہ ڈرامہ نگار بھی تھے اور پروڈیوسر بھی تھے، وہ دانشوروں کیساتھ دانشور ، سیاستدانوں کیساتھ سیاستدان اور کامریڈوں کے ساتھ کامریڈ دیکھے گئے ہیں ۔ عطاء میں وہ تمام صلاحیتیں تھیں جو ایک عظیم انسان میں ہوتی ہیں۔

عطا شاد کی عشقیہ شاعری میں دیکھیں تو وہ ساغر صدیقی جیسا ہے، انکی مزاحمتی شاعری کو پڑھیں تو حبیب جالب جیسا ہے۔ عطاءشاد کی روحانی شاعری اپنی مثال آپ ہے، وہ جام درسی ، مست توکلی، عزت، مہرک شے مرید ہانی کی داستان اپنی شاعری میں کس انداز میں بیان کرتا ہے۔

پہلے انہوں نے اردو میں شعر کہے پھر اردو شاعری کا سلسلہ بلوچی شاعری کیساتھ چلتی رہی، وطن کے ہر فرد کی طرح عطاءکو اپنی گلزمین سے بھی محبت تھی، اس محبت کا اظہار جابجا ان کی شاعری میں ملتا ہے اور یہی دراصل انکی شاعری کا حسن ہے، عطاءکی شاعری کسی ایک نقطہ خیال کی قائل نہیں وہ کبھی سرزمین اور اپنے وطن کی محبتوں میں کھوجتے ہیں توکبھی اپنی قوم اور فرزندوں پر ہونے والے ظلم و جبر نانصافیوں کا صبر سے لبریز ہوجاتا ہے، وہ ایک بہادر شاعر تھے کہ خوف اور ڈر نے انکے قلم کے سامنے ٹہرنے کی ہمت کبھی نہ کی، جہاں ظلم و جبر یا حق و انصاف کی آواز کو دبایا جاتا، آزادی قوم و ملک کی خاطر لڑنے والوں کے سروں کو قلم کیا جاتا اور وطن کے معصوم و بے گناہ فرزندوں کو پھانسی کے تختہ دار پر لٹکا کر ان کی آواز دبانے کی کوشش ہوتی ہے تو عطاء شاد کے جذبات اور خیالات میں انقلاب موجزن ہوجاتا ہے، وہ اپنی شاعری کے ذریعے حالات سے مردانہ وار لڑنے کی کوشش کرتا وہ اپنے جذبات کا اظہار یوں کرتا ہے۔
،، تو پہ سرانی گڈگ ئَ زندے ھیالان ئَ کشے،
پہ سندگ ئَ داشت کنے پلاں چہ بوتانی ئَ ،،

،،یاد ہے ابھی تازہ گھر کے راکھ ہونے کی،،
ظلمتوں کا سودا گر پھر چراغ لایا ہے،،

یوں عطا ءکی مزاحمتی اشعار بہت ہیں مگر آئیے دیکھتے ہیں کہ عطا کو ان کی اس نظم وفا میں ،،
میرے زمین پر ایک کٹورے پانی کی قیمت ،،
سو سال وفا ہے آو ہم بھی پیاس بجھائیں زندگی کا سودا کرلیں،

یہ نظم وفا بلوچ روایت کاا یک شق ہے کیونکہ وفاداری بلوچی روایت کا یک جز ہے، بلوچ بنیادی طور پر صدیوں سے اس جز پر عمل کرتے آرہے ہیں، جنگی و مذہبی تاریخ میں بلوچوں کی وفادار ی کی مثالیں بھری پڑی ہیں، بلوچ دنیا میں ایک وفادار قوم ہے، ویسی تو عطاءشاد کی شاعری میں ثقافتی اقدار کے حوالے سے بہت خوبصورت نظمیں ملتی ہیں لیکن ان کی یہ خوبصورت نظم وفا، جو انہوں نے بلوچی کہاوت ایک کٹورے پانی کا بدلہ سوسال وفا ہے کے پس منظر میں کہی ہے۔ عطاء کا اپنا اسلوب تھا، اپنی ڈکشن تھی، اپنی علامتیں تھیں معنی کا اپنا جہاں تھا، الفاظ کو برتنے کا ان کا اپنا ایک انداز تھا، ان کے بارے میں مشہور ہے وہ تراکیب کا شعر تھا، آئیے اس حوالے سے ان کی کچھ تراکیب استعار ے اور علامتیں ملا حظہ کریں۔

آبنار، چشمہ، کوہسار ، طفل بیمار جان صدا آشنا بے طلب ما ہ لب، سنگ آب، برفاگ، شبرمئے خواب لمحے جنبش گلزمین ، عرضی طلب ، خواب زار مسافت ، طرف زمین ساز، یخ شب گرم موسم ، بگولوں کے ستون ، طشت جان، سکوت یخ ، بند کرار ، فعل بعارت گنگ، ونگ، لمحے صورت خلوت خوش بدن انکار وغیرہ وغیرہ عطاءشاد کے اشعاروں میں استعمال ہونے والی تراکیب ایک طلسماتی فضا کی تعمیر کرتی ہے عطا شاد نت بہت خوبصورت غزلیں کہیں ہیں آئے غزلوں کے اشعار دیکھیں۔
کوہساروں کی عطاء رسم نہیں خاموشی
رات سو جائے تو بہتا ہو چشمہ بولے
سیلاب کو نہ روکئے رستہ بنائیے
کس نے کہا تھا کہ گھر لب دریا بنائیے
پارساوں نے بڑے ظرف کا اظہار کیا
ہم سے پی اور ہمیں رسوا سربازار کیا۔
“ بیا کہ استالاں جتگ پل ماں شپ ءِ گہوار ءَ
ماہکاں ءِ اے وتی آب ءِ روان ستگیں اتگ۔

انہی آخری الفاظ میں میں اپنی باتوں کو ختم کرتا ہوں، مجھے کافی دکھ ہوا ہے کہ عطا کو کسی نے اپنایا نہیں، میں اپنا بتاتا ہوں کہ ہر سال 13فروری کی رات کو میں عطاء شاد کی یاد میں جاگتا ہوں، صرف اور صرف عطاشاد کی غزلوں اور نظموں سے اپنا دل بہلاتا ہوں لیکن یہ ہم سب پر فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم پر سال اس کی سالگرہ اور یوم وفات کے شایاں شان طور پر منائیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔