شہدائے شور پارود – بالاچ بلوچ

426

شہدائے شور پارود

تحریر: بالاچ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

روزانہ اکیڈمی جانا میرا معمول تھا۔ معمول کے مطابق لیکچر سننے کے بعد عصر کے وقت ہوٹل پر دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر دنیاوی باتیں اور ہنسی مزاق کرتا تھا، دوستوں سے فارغ ہوکر میں گھر روانہ ہوتا، گھر میں کبھی کبھار میں سیاسی کتابیں پڑھتا تھا۔ وہی کتابیں جو انقلابی لیڈروں کے نام تھے، جن کے سبب میں حق اور باطل کی پہچان کرسکا جس میں بلوچستان کی غربت زدہ حالات میرے سامنے ہر روز پیش ہوتے۔

خیر ایک روز میں نے اکیڈمی کے دوستوں کو “رخصت اف اوارُن” کہہ کر ان سے کچھ وقت کے لئے جدا ہو گیا، بیچ راستے بچپن کے ایک دوست سے ملاقات ہوئی اور بلوچی روایات کے مطابق اسے چائے پینے کو کہا تو وہ مجھے یہ کہہ کر چل پڑا کہ بڑے بھائی سے مل کر واپس ہوتا ہوں، کچھ وقت کیلئے آپ میرا انتظار کریں ۔ انتظار ہی میں تھا کہ میں اپنا فون نکال کر فیسبک دیکھنے لگا تو اچانک (جلال بلوچ) نامی آئی ڈی سے مجھے فرینڈ رکویسٹ آپہنچا اور میں نے ایکسیپٹ کر دیا، ایکسیپٹ کے فوراً بعد چونکہ میں ایک طالب علم ہوں تو سیاسی مطالعہ کرنا میرا شوق تھا تو اس شخص نے اپنے سیاسی پوسٹ سے مجھے متاثر کردیا، مجھے خاصہ دلچسپی ہونے لگا، کیونکہ وہ اکثر بلوچستان کے حقوق ، بلوچ تاریخ اور زبان کے بارے میں پوسٹ کیا کرتے تھے، جن سے متاثر ہوکر میں انہیں دیکھنے کا منتظر رہتا_ایک دن اچانک (جلال بلوچ) نے مجھے میسج کیا کچھ وقت تک حال احوال ہوتا رہا پھر جلال میرے ذہن کو آہستہ آہستہ پڑھنے لگا، پھر اچانک اس نے ایک دن مجھے کچھ دوستوں کی تصویریں بھیج دی اور کہنے لگا کیا میں اُن دونوں کو جانتا ہوں؟ چونکہ میں انکو جانتا تھا تو میں نے جی ہاں میں جواب دے دیا۔ کچھ دن بعد جلال کا ایک میسج آیا کہ وہ میرے شہر مجھ سے ملنے آرہے ہیں۔ اب تو میں کافی خوش تھا اور اُن کے آنے کا بے چینی سے منتظر تھا۔ جلال کے انتظار میں پوری رات تصوراتی محل میں کھویا رہا کہ نجانے یہ سرمچار دوست کس طرح ہونگے، ان کا مزاج ،رہن سہن اور انکا انداز گفتگو وغيرہ ۔ رات تو انہیں خیالات میں گذر گئی۔ اگلے روز دس بجے کے قریب نیند سے اٹھا تو سنگت جلال کا مجھے مسیج آیا کہ وہ مجھے ملنے میرے شہر آرہے ہیں۔

خوشی کی تو انتہا نہ رہی تیار ہوکر جلدی سے وہاں پہنچا ۔ موبائل نکال کر سنگت کو فون کرنے والا ہی تھا کہ سنگت نے مجھے پیچھے سے آواز دے دی، جیسے ہی پیچھے مڑا تو وہ میرے انتظار میں کھڑے دِکھے، انہیں دیکھ کر خوشی کے جس کیفیت میں مبتلا ہوا، وہ تو محض میں ہی جانتا ہوں۔ کیونکہ اس وقت میں نہ کہ ایک عام شخص سے مل رہا تھا بلکہ بہادر نڈر مرد سے مل رہا تھا، جو سرمچار دوست تھا، جس نے اپنی عیاشی کی زندگی ترک کرکے اپنی جوانی جنگِ آزادی کیلئے وقف کردی تھی ۔ اس نے میرے ساتھ تو صرف دو گھنٹے گزارے یہ دو گھنٹے تو اس سرمچار کے ساتھ دو منٹ کی طرح بیت گئے اس کے بعد اسے ضروری کام سے کہیں اور جانا تھا تو وہ مجھے رخصت کرکے چلے گئے ۔

جلال جان سے حال احوال ہوتا گیا اب مجھے سرمچاروں سے واقفیت ہونے لگی، مجھے انکے ساتھ کام کرنے کی اہمیت کا پتہ چل گیا، پھر میرا جلال کے اُن دوستوں سے رابطے شروع ہوگئے جنھوں نے پہاڑوں کا رخ کیا ہوا تھا، جو بلوچ قوم کی ننگ و ناموس کی جنگ لڑرہے تھے اور لڑ رہے ہیں۔ تو ان دوستوں کے ساتھ میں کافی تعلق بڑھا چکا تھا۔

23 نومبر کے دن جیسے ہی میں نیند سے اٹھا تو موبائل فون اٹھا کر میں فیس بُک چیک کرنے لگا کہ اچانک جلال جان کا تصویر میرے سامنے آگیا۔ مجھے حیرت ہونے لگاکہ اپنی تصویر انٹرنٹ پر کیسے اور کیوں دیا ہے؟ اور پھر خود کو اور اپنے چہرے پر ہاتھ لگا رہا تھا ، خود کو یہ محسوس کرانے کہ میں نیند میں تو نہیں ہوں؟ پھربھی مجھے یقین نہیں آرہا تھا۔ اپنے تسلی کے لئے میں نے ایک دوست کو میسج کیا ۔ کیا جلال جان کا واقعہ حقیقت ہے تو اس نے مجھے جواب میں ہاں کہا یہی رازق جان ہے، جو اپنے وطن کی خاطر فدا ہوگیا۔ اس لمحے میرے پاؤں تلے زمین ہی نکل گئی کہ یہ وہی شخص ہے کچھ دن پہلے مجھ سے ملا تھا میرے ساتھ تھا۔ میرے جسم کے عضو کچھ وقت کے لئے جیسے سُن ہو گئے اور دل کی دھڑکن تیز ہونے لگا دماغ تو کام کرنا ہی چھوڑ گیا کہ اب جلال جان کو وطن کی محبت نے جذب کر لیا تھا، اپنے وطن سے محبت کی ایک کمال مثال قائم کردی اب مجھے محسوس ہونے لگا کہ اس سنگت نے یہ سب کچھ کر دکھایا اس کے نظریہ پر میں بھی چل سکتا ہوں اب اسی سوچ نے مجھے پہاڑی سنگتوں سے قریب کیا، اب پہاڑی سنگتوں سے رابطہ ہونے کے بعد انہوں نے مجھے پہاڑ آنے کی دعوت دی کہ ادھر چکر لگانے کیلئے آجاؤ اب میں اپنے نظریہ کے مالک پہاڑوں کے طرف روانہ ہوا اب میری آتشِ محبت بڑھ چکی تھی، پہاڑی سنگتوں نے مجھے بلایا اور میں انکے بتائے ہوئے پتہ پر پہنچ گیا تو مجھے وہاں ایک دوست ملا اس کے ساتھ سلام دعا کرکے چلے جارہے تھے تقریباً ہم نے مسسل 30 منٹ کا سفر طے کیا ۔ ایک پہاڑ کے نیچے سے گزر رہی تھے کہ اچانک مجھے چار سرمچار ساتھی ملے، ان میں ایک ماما نجیب، دوسرا ڈاکٹر شہزاد بھی تھا ڈاکٹر شہزاد کے ہمراہ بیٹھے ماما نجیب مجھے دیکھتے ہی پہلی نگاہ میں آواز دی ( برک بالاچ جان نے الله حتے) پھر ماما نجیب سے مل کر سلام دعا کرنے کے بعد چونکہ اب رات کا وقت تھا ہمیں بھوک بھی لگی تھی تو دوستوں نے کھانا پکانا شروع کیا۔ کچھ دوست کھانا پکارہے تھے اور میں اور ماما نجیب آگ کے اردگرد بیٹھے باتیں کر رہے تھے پھر دو دن بعد ہم (وتاخ) کیمپ شور پہنچ گئے۔

ادھر کے سنگتوں کے ساتھ مل کر بہت خوشی ہوئی انکے مزاج کی بات ہی کچھ اور تھی، ان سے مل کر مجھے اپنے زندگی کے اہمیت کا اندازہ ہونے لگا، اب میں ڈاکٹر شعیب اور خُدل سے ملا، ڈاکٹر شہزاد یہ تو ایک کم عمر سنگت تھا، جو دوسرے دوستوں کو اکثر چھیڑتا رہتا تھا اور ہنسی مزاق کرنا اس کی عادت بن چکی تھی ۔ (وتاخ) کیمپ تو ڈاکٹر شہزاد کو مختلف ناموں سے پکارتا تھا ۔ کوئی (کالو) تو کوئی (بِچھو) جیسے ناموں سے پکارتا تھا، بھلا میں یہ کیسے بھول سکتا ہوں ان عظیم ہستیوں کے ساتھ گذارے ہوئے لمحے۔

ایک دفعہ سارے سنگت مختلف کاموں میں مصروف تھے تو مجھے اور ڈاکٹر شہزاد کو لکڑیاں لانے تھے، جب ہم لکڑیاں اٹھانے لگے تو ڈاکٹر شہزاد نے دو چھوٹے لکڑیاں میرے کندھے پر تھما دیں اور ایک بڑا سا لکڑی خود اٹھایا ۔ جیسے ہی ہمارا طویل سفر مختصر ہونے لگا تو اُس نے بڑا لکڑی مجھے دے دیا اور چھوٹے لکڑی اس نے خود اٹھایا تا کہ سنگتون کو لگے یہ بڑا سا لکڑی میں نے اٹھایا ہے۔

اس کے علاوہ میں ان یادوں کو کیسے بھول سکتا ہوں، جب ڈاکٹر شعیب، وہ تو ہمیشہ میرے ساتھ رہتا تھا اور بیٹھ کر باتیں کرتا تھا اور Training کے دوران میرے ہمراہ رہنا اور مجھے کمک دینا۔ آپ کا اردو بولنے کا انداز، ہم دونوں تو اردو میں ہمکلام ہوتے تھے کیونکہ نا وہ براہوئی سمجھتا تھا اور نا ہی میں بلوچی سمجھتا تھا، اسی لئے اس شھید کے ساتھ اردو کی بولی ہوتا تھا میں Training میں تیار ہوکر واپس شہر پہنچا تو میں آپکو بہت یاد کرتا تھا کیونکہ آپ میرے دوست اور میرا استاد تھے ۔

شھید ماما نجیب جو کہ ایک دوست بھی تھا ایک اچھا کمانڈر بھی تھا۔ میں وہ یادیں بھی بھول نہیں سکتا جب ہم ایک دوسرے کو چھیڑتے تھے تو خُدل کو آواز دیتے تھے ماما فلاں سنگت مجھے چھیڑ رہا ہے اسے سمجھاؤ وغیرہ ۔ تب ماما نجیب گم سم اپنے کاموں میں مصروف چپ ہوکر مسکراتا تھا، خدل کا چپ رہنا، اپنے کام سے کام رکھنا اور موبائل میں فلم دیکھنا، اپنے دوستوں کی انتہائی دلچسپ یادیں ہیں، جنہیں بیان کرنا میرے جیسے کم علم کے بس کی بات نہیں، ان سب کے خون کا بدلا آزاد بلوچستان ہوگا ۔

اخس در گواڑخاک مر ننے آن ہنار
وا پدا اندن نن گم و کھور بے چکار


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔