بولان یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز انتظامیہ فیسوں میں اضافے کا فیصلہ واپس لے – ڈاکٹر صبیحہ بلوچ

141

بلوچ طلباء ایکشن کمیٹی(بساک) کی چیئر پرسن ڈاکٹر صبیحہ بلوچ، ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ، ڈاکٹر وقار بلوچ ودیگر نے کہا ہے کہ بولان یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز انتظامیہ فیسوں میں بے تحاشہ اضافے کا فیصلہ واپس لیکر انٹری ٹیسٹ دینے والے امیدواروں کی میرٹ لسٹ آویزاں کرکے ادارے میں باہر کے ممالک کے لیے مختص سیٹوں کو بلوچستان کے مختلف زونز میں تقسیم کرے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کے روز کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا قبل ازیں بلوچستان اسمبلی اور کوئٹہ پریس کلب کے سامنے بو لان یو نیو رسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سا ئینسزکے طلبانے مطالبات کے حق میں دھرنا دیا۔ بلوچستا ن اسمبلی کے سامنے مظاہرین سے صوبائی وزیر خزانہ ظہور بلیدی اور اپوزیشن رکن اختر حسین لانگو نے مذ ا کر ات کئے صوبائی وزیرکی جانب سے مسائل حل کرنے کی یقین دہانی کر وائی گئی جس کے بعد طلبا ء نے دھر نا ختم کر دیا۔

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے طلباء رہنماؤں نے مزید کہا کہ کالج کو یونیورسٹی کا درجہ ملنے سے طالبعلموں کے مسائل میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے وائس چانسلر نے ایڈمیشن فیس 10000سے بڑھا کر 18000اور ویلفیئر فنڈ اور اکیڈمی فیس 5000سے بڑھا کر 70000کردی ہے جو بلوچستان کے مستحق طلبا ء و طالبات کے ساتھ ظلم ہے فیصلہ کو کسی صورت قبول نہیں کرینگے۔

انہوں نے کہا کہ ادارے میں داخلوں کیلئے 15دسمبر 2019کو انٹری ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا تھا مگر اب تین ماہ گزر نے کے باوجود ڈسٹرکٹ میرٹ لسٹ آویزاں نہیں کی جارہی ہے جس سے امیدواروں کا قیمتی وقت ضائع ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وائس چانسلر نے دیگر ممالک کے لیے مختص خالی رہ جانیوالی سیٹوں کو صوبائی میرٹ پر دینے کا اعلان کیا جو بلوچستان کے پسماندہ اضلاع کے امیدواروں کے ساتھ نا انصافی ہے۔

صوبے کے تعلیمی معیار کو مدنظر رکھتے ہوئے ان خالی سیٹوں کو تمام ڈویڑنز میں برابری کے طور پر تقسیم کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ 2013اور2014 میں سیلف فائننس کے لیے کو مختص سیٹوں کو عدالت نے منسوخ کیا تھا عدالتی فیصلہ میں یہ واضع ہے کہ پبلک سیکٹر کو پرائیویٹ سیکٹر نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس کے باوجود وائس چانسلر نے سیلف فائنینس کا سیٹیں واپس بحال کردیئے ہیں جو ایک پبلک یونیورسٹی کو پرائیوٹائزشن کی جانب لے جانے کی سازش ہے۔

انہوں نے کہا کہ ادارے کی نجکاری کو کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ ایک سال سے ہمیں سکالرشپ نہیں دیئے جارہے ہیں اس ضمن میں ہم نے انتظامیہ کو بار بار آگاہ کیا ہے مگر کوئی شنوائی نہیں ہورہی ہے اسکالرشپ ماہانہ 6000سے کم کرکے 3000کردیا گیا جو غریب طلبا کے ساتھ بدترین نا انصافی ہے۔

انہوں نے کہا کہ طلبہ کو سکالرشپ کٹوتی کئے بغیر ادا کی جائے اور بلوچستان کے پسماندہ اضلاع کے تعلیمی معیار کو مدنظر رکھ کر انٹری ٹیسٹ پاسنگ کور سکور 100سے کم کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ مسائل کے حل کیلئے ایک عرصہ سے سراپا احتجاج ہیں ہمارے مطالبات جلد از جلد تسلیم کرکے انکا حل نکلالاجائے ورنہ ہم اپنے احتجاج کو مزید وسعت دیں گے جو بلوچستان بھر میں ایک تحریک کی صورت اختیار کریگی۔