جامعہ بلوچستان تعلیمی ادارے سے زیادہ فوجی چھاؤنی لگتا ہے – کمال بلوچ

304

بی ایس او آزاد کے سابق وائس چیئرمین کمال بلوچ نے اپنے جاری کردہ بیاں میں کہا کہ بلوچستان یونیورسٹی میں رونما ہونے والا واقعہ نہ صرف بلوچستان کے بلوچ و پشتون روایات کے منافی ہے اور ایسے حرکات انسانی اقدار کے بھی برخلاف ہے، طلباء و طالبات کے ساتھ اساتذہ اور انتظامیہ کا یہ رویہ انتہائی قابل مذمت ہے، اور یہ ایک سنگین جرم ہے۔

انہوں نے کہا کہ معاشرے میں استاد اور والد کا ایک ہی مقام ہے، ایسے میں طلباء و طالبات کا اساتذہ کے ہاتھوں ہوس کا شکار ہونا درندگی ہے، اس طر ح کے مجرمانہ افعال کے خلاف پوری قوم کو اٹھ کھڑا ہونا چاہیئے، اور ایسے گھناونے حرکتوں کے خلاف آواز بلند سب کی ذمہ داری ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان یونیورسٹی پہلے ہی ایک تعلیمی ادارہ سے زیادہ فوجی چھاؤنی کا منظر پیش کرتا ہے اور ایسے ماحول میں اگر کسی طالب علم نے اپنے حق کیلئے صدا بلند کی تو اسے یہی فوجی اُٹھا کر لاپتہ کر دیتے ہیں، اس وقت فوج کے ہاتھوں سینکڑوں طلباء جبری طور پر لا پتہ ہیں۔ گذشتہ دس سالو ں سے بلوچستان یونیورسٹی کے مرکزی دروازے سے لے کر ہاسٹلوں تک فوجی چوکیاں قائم ہیں، اور اس تعلیمی ادارے ایک فوجی کیمپ سے زیادہ سخت بنا دیا گیا ہے لیکن تعلیمی ادارے پر اس طرح کی قبضہ پر کوئی پوچھنے والا نہیں، نام نہاد قوم پرست جو درحقیقت وفاق پرست ہیں، کےلئے شرم کا مقام ہے۔

کمال بلوچ نے کہا کہ بلوچستان یونیورسٹی کو ایک تعلیمی ادارے کی طرح نہیں بلکہ ایک فوجی چھاؤنی کی بند وبست کے طریقے سے چلایا جا رہا ہے، جہاں ایک بریگیڈئیر وائس چانسلر ہے۔ سابقہ فوجیوں کو تعلیمی اداروں کا سربراہ مقرر کرنے کے نتائج یہی ہوتے ہیں،اور ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچستان میں یہ سب کچھ دانستہ طور ایک منصوبے کے تحت کیا جا رہا ہے، حال ہی میں بو لان میڈیکل یونیورسٹی اینڈ ہیلتھ سائنسز میں طالبات کے ساتھ انتظامیہ کا رویہ یا پنجاب میں بلوچ طلباء پر تشدد سب واقعات بلوچوں کو تعلیم سے دور رکھنے کی ایک ہی کڑی ہے، اور بلوچ طلباء کو اس کا دراک ہونا چاہیئے۔

انہوں نے آخر میں کہا کہ اس افسوسناک عمل کو دیکھ کر بلوچ طلباء و طالبات سےاپیل کرتا ہوں کہ حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اپنے تحفظ کے لئے اتحاد اور اتفاق پیدا کریں، اور اپنی حقیقی طلباء تنظیم کے ساتھ کھڑے ہوکر اس طرح کے بیہودگی کے خلاف یکمشت ہو کر تما م ملوث کرداروں کو آشکار کریں تاکہ آئندہ اس طرح کے واقعات کے روک تھام میں مدد مل سکے۔