پشتونخوامیپ کے زیراہتمام میرانشاہ واقعے اور اعلیٰ عدلیہ پر حملے کیخلاف مظاہرے

173

جاسوسی ادارے سیاست میں مداخلت کی طرح اعلیٰ عدالتوں کو بھی اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتے ہیں جو ہر حالت میں قابل مذمت، قابل گرفت اور ناقابل برداشت ہے۔

پشتونخواملی عوامی پارٹی کے زیر اہتمام شمالی وزیر ستان میرانشاہ میں 26مئی کے خونزریز واقعہ اور اس میں پشتون تحفظ موومنٹ کے13افراد کے ہلاکت اور 45افرادکے زخمی ہونے اور پشتون عوام کے خلاف جاری فوج کشی،پشتون عوام کی نسل کشی اور ملک کے اسٹیبلشمنٹ اور وزیر اعظم کی ایماء پر ان کے صدر کی جانب سے ملک کے اعلیٰ عدلیہ پر حملے اور ججوں بالخصوص سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف غیر آئینی‘غیر قانونی سازش وبدنیتی پر مبنی جعلی ریفرنس کے خلاف پارٹی چیئرمین محمود خان اچکزئی کی ہدایت پر ملک بھر سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں احتجاجی جلسوں اور مظاہروں کا انعقاد ہوا۔

احتجاجی مظاہرے قلعہ سیف اللہ، ژوب، سنجاوی، چمن، ہرنائی، لورالائی، پشین،موسیٰ خیل اور زیارت سمیت دیگر علاقوں میں منعقد ہوئے۔

مقررین نے احتجاجی جلسوں مظاہروں،ریلیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 26مئی کو شمالی وزیرستان کے علاقے میرانشا خڑ قمر چیک پوسٹ پر پی ٹی ایم کے رہنماؤں اور اراکین قومی اسمبلی علی وزیر اور محسن داوڑ ودیگر کارکنوں رہنماؤں کے ہمراہ پر امن دھرنے کے شرکاء سے اظہار یکجہتی کیلئے پہنچے تو چیک پوسٹ پر سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں نے ان پر بلاجواز اندھا دھند فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 13بے گناہ اور نہتے افراد شہید اور 45سے زائد زخمی ہوگئے اور اراکین قومی اسمبلی علی وزیر اور محسن داوڑ کواب تک غیر قانونی طور پر گرفتار کیا گیا اور انہیں نامعلوم مقام پر رکھا گیا ہے جبکہ پشتون عوام کے خلاف بالعموم اور وسطی پشتونخوا (فاٹا) کے عوام کے خلاف بالخصوص فوج کشی کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے مگر افسوس کا مقام ہے کہ ملک کے حکمران بالخصوص فوجی اسٹیبلشمنٹ اس بات پر ناراض ہے کہ کیونکر پشتونخوامیپ پی ٹی ایم اور دیگر سیاسی جمہوری پارٹیاں اس ظلم وجبر کے خلاف آواز اٹھارہی ہے۔ایک جانب وہ لوگوں کو گولیوں سے چھلنی کررہے ہیں جبکہ دوسری جانب وہ پر امن احتجاجی جلسوں اور مظاہروں میں شرکت کرنیوالوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرتے ہوئے انہیں گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنایا جارہاہے اور گذشتہ دنوں لورالائی میں پارٹی کے مرکزی کمیٹی کے رکن دوست محمد لونی، چمن سے پی ٹی ایم کے ملا بہرام کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اسی طرح لورالائی میں قیوم اتمانخیل، پشتونخو ایس او کے ضلعی سیکرٹری محبت خان ملازئی کو خفیہ ادارو ں کے اہلکاروں نے اغواء کرکے شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔

انہوں نے کہا کہ گذشتہ کئی سالوں سے وسطی پشتونخوا (فاٹا) کے عوام نے جو مصیبتیں جھیلیں ہیں وہ ناقابل بیان ہے پہلے مرحلے کے طور پر بڑے منظم انداز سے دنیا جہاں کے دہشتگردوں کو وہاں بسایا گیا ان کی تربیت گاہیں، مراکز قائم کیئے گئے اور وسطی پشتونخوا (فاٹا) کے غیور عوام اور ان کے مشران کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ شروع کیا گیا۔

مقررین نے کہا کہ 26مئی کے خونریز واقعہ اور اس میں 13بے گناہ لوگوں کی شہادت اور 45کے زخمی ہونے کے المناک وانسانیت سوز واقعہ نے تمام پشتون عوام کو ہلاکر رکھ دیا ہے مگر یہ امر انتہائی افسوسناک ہے کہ ملک بھر کی پرنٹ والیکٹرونک میڈیا نے بے گناہ لوگوں کو دہشتگرد ثابت کرنے کی کوشش کی اور اراکین قومی اسمبلی علی وزیر اور محسن داوڑ پر اپنے ہی ساتھیوں کے قتل کا ایف آئی آر درج کیا جو کہ سراسر ظلم وزیادتی ہے اورکوئٹہ کے 7اکتوبر 1983کے پر امن احتجاجی مظاہرے جس کی قیادت پارٹی چیئرمین محمود خان اچکزئی کررہے تھے پر بھی اس وقت کے جنرل ڈائر(جنرل رحیم الدین) نے فائرنگ کی جس میں پشتونخوامیپ کے چار کارکن شہید درجنوں زخمی اور درجنوں کو کئی سال پابند سلال رکھا گیا اس وقت جنرل ضیاء کی فوجی آمریت نے بھی پارٹی چیئرمین کے خلاف اپنے ہی ساتھیوں کے قتل کا ایف آئی آر درج کیا تھا آج پھر اُسی تاریخ کو دوہرایا جارہا ہے۔

مقررین نے کہا کہ فوری طور پر علی وزیر، محسن داوڑ اور ان کے تمام ساتھیوں کو رہا کیا جائے، پورے وسطی پشتونخوا (فاٹا) سے فوج کو واپس بلایا جائے، تمام انتظام وہاں کے سول انتظامیہ کے حوالے کیا جائے اور ان تمام واقعات کا پارلیمانی کمیشن کے ذریعے تحقیقات کی جائیں۔

مقررین نے کہا کہ وسطی پشتونخوا (فاٹا) اور خیبر پشتونخوا میں دہشتگردی کے واقعات کے بعد اب ایک منظم سازش کے تحت دہشتگردی کوبلوچستان میں منتقل کیا جارہا ہے اور گذشتہ چند ماہ میں چمن، قلعہ سیف اللہ، لورالائی، سنجاوی، پشین، ہرنائی کے خوست اور کوئٹہ میں دہشتگردی کے واقعات ہوئے،لیویز کے اہلکاروں اور آفیسروں پر حملے کیئے گئے او رجب لورالائی میں دہشتگردی کے واقعہ کے خلاف دھرنا دیا گیا تو پر امن دھرنے کے شرکاء پر دھاوا بول دیا گیاجس میں پروفیسر ارمان لونی کی شہادت کا واقعہ رونماء ہوا۔

مقررین نے ملک بھر کی سیاسی جمہوری پارٹیوں، وکلا اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے اپیل کی کہ پشتون عوام کے خلاف جاری فوج کشی اور پشتون عوام کی نسل کشی کے خلاف آواز اٹھائیں۔ مقررین نے مطالبہ کیا کہ صوبے سے فرنٹیئر کور (ایف سی) کو واپس بلا کر مقامی فورسز پولیس اور لیویز کے حوالے کیا جائے اور ہرنائی، دکی، لونی،چمالنگ، مچھ اور دیگر علاقوں میں ایف سی کے کول مائنز پر قبضہ اور مائنز اور کوئلے پر غیر آئینی غیر قانونی ٹیکس کا خاتمہ کیا جائے۔

مقررین نے کہا کہ ایک بار پھر ایک منظم سازش اور منصوبے کے تحت ملک کے اعلیٰ عدلیہ پر حملہ کیا جارہا ہے اور پہلے مرحلے کے طور پر سپریم کورٹ کے معزز جج جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ہائیکورٹ کے دو ججوں کے خلاف موجودہ سلیکٹڈ حکومت اور ان کے سلیکٹڈ وزیر اعظم کی ایماء پر ملک کے نام ونہاد صدر نے جعلی بوگس اور بدنتی پر مبنی ریفرنس دائر کی ہے جس کا مقصد صرف اور صرف ان جج صاحبان اور بالخصوص جناب جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کو ان کے منصب سے ہٹا نا ہے کیونکہ 8اگست 2016کوئٹہ کے سول ہسپتال کے خونریز واقعہ جس میں 70کے قریب ہمارے قابل ترین وکلاء اور دیگر شہری شہید ہوگئے تھے اس انسانیت سوز واقعہ اور پھر 2017میں فیض آباد روالپنڈی دھرنے کے کمیشن کے سربراہ کے طور پر حقائق پر مبنی میرٹ پر جو تاریخی فیصلہ اور رپورٹ دی جس میں دہشتگردی کے ایسے المناک واقعات کی وجوہات، ان کے ذمہ داروں اور حکومتی اداروں کی ذمہ داریوں کا تعین اور آئندہ کیلئے اس کی روک تھام کے اقدامات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ یہ تاریخی دستاویز اور رپورٹ ہمارے ملک کے مقتدر حلقوں کو ہر گز قبول نہیں جس کی پاداش میں جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف غیر آئینی وغیر قانونی اور جعلی ریفرنس دائر کی گئی اور اب یہ ظاہر ہوگیا ہے کہ ملک کی اسٹیبلشمنٹ مسلط وزیر اعظم اور اس کے نام نہاد صدر اعلیٰ عدالتوں کے قانون اور میرٹ کے مطابق ہونیوالے فیصلوں کو نہیں مانتے اور نہ ہی دہشتگردی کا خاتمہ چاہتے ہیں بلکہ جاسوسی ادارے سیاست میں مداخلت کی طرح اعلیٰ عدالتوں کو بھی اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتے ہیں جو ہر حالت میں قابل مذمت، قابل گرفت اور ناقابل برداشت ہے اور پشتونخواملی عوامی پارٹی ملک کی سیاسی جمہوری پارٹیوں کے ساتھ ملکر عدلیہ کی حقیقی آزادی اور سپریم کورٹ کے معزز جج جناب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور دیگر کے خلاف جعلی ریفرنسز کی روک تھام کیلئے اپنی جدوجہد کا آغاز کردیا ہے۔مقررین نے کہاکہ جعلی ریفرنسز دائر کرنے پر ملک کے صدر کا مواخذہ ہونا چاہیے۔