ڈیرہ مراد جمالی سے لاپتہ سکندر اور علی جان تاحال بازیاب نہ ہوسکے

125

سکندر اور علی جان کو فرنٹیئر کور اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے حراست میں لیا تھا ۔ لواحقین

دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق بلوچستان کے علاقے ڈیرہ مراد جمالی سے جبری طور پر لاپتہ کیئے جانے والے دو افراد کئی سال گزر جانے کے بعد بھی تاحال بازیاب نہیں ہوسکے۔

مذکورہ افراد کے لواحقین کا دی بلوچستان پوسٹ کے نمائندے کو تفصیلات بتاتے ہوئے کہنا ہے کہ ڈیرہ مراد جمالی وارڈ نمبر پانچ کے رہائشی 31 سالہ سکندر ولد دولت خان بنگلزئی کو نومبر 2014 میں فرنٹیئر کور اور خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے ان کے گھر سے حراست میں لیکر نامعلوم مقام پے منتقل کردیا تھا جبکہ وارڈ نمبر پانچ ہی کے رہائشی 29 سالہ علی جان ولد محمد یعقوب بنگلزئی کو 2017 میں رمضان کے مہینے میں ڈیرہ مراد جمالی بکرا پیڑی سے سادہ کپڑوں میں ملبوس خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے اغواء کیا تھا جو تاحال بازیاب نہیں ہوسکے ہے۔

واضح رہے کہ بلوچستان کے مختلف علاقوں جبری طور پر لاپتہ ہونے والے افراد کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے جبکہ لاپتہ افراد کی بازیاب کیلئے آواز اٹھانے والی تنظیموں کے مطابق ان افراد کو لاپتہ کرنے میں ریاستی فورسز اور خفیہ ادارے براہ راست ملوث ہیں۔

دوسری جانب گذشتہ دنوں میں سالوں سے لاپتہ متعدد افراد بھی منظر عام آچکے ہیں لیکن بازیاب ہونے والے افراد میں تاحال کسی نے بھی اپنے گمشدگی اور اس میں ملوث افراد کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی ہے۔

مزید برآں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ کا اپنے ایک بیان میں کہنا ہے کہ آٹھ دس لوگوں کو منظر عام پر لانے سے ہمیں دھوکا نہیں دیا جائے بلکہ ہمارے لسٹ کے مطابق تمام افراد کو منظر عام پہ لائیں۔

ماما قدیر بلوچ کا گذشتہ روز سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ ٹویٹر پر ایک پیغام میں کہنا ہے کہ ‏میں انسانی حقوق کے تنظیموں اور اقوام متحدہ کو آغا کرنا چاہتا ہوں کہ نصراللہ، بی بی گل، طیبہ اور ہوران بلوچ کو کوئی بھی نقصان پہنچا تو اس کی تمام تر ذمہ دار پاکستان فوج، خفیہ ایجنسیاں، وفاقی و صوبائی حکومت ہوگی۔

انہوں نے الزام عائد کیا ہے کہ انہیں لاپتہ افراد کیلئے احتجاج ختم کرنے کیلئے نامعلوم نمبرو سے ریاستی اداروں کی جانب سے دھمکیاں دی جارہی ہے۔

دوسری جانب اقوام متحدہ کے نمائندے کے دورہ پاکستان کے مناسبت سے بلوچ قومپرست جماعتیں احتجاجی مظاہروں اور سوشل میڈیا کمپئین کا اعلان کرچکے ہیں جبکہ بلوچ سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کی جانب سے بھی بلوچستان میں لاپتہ افراد اور دیگر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کیلئے سوشل میڈیا میں کمپئین چلایا جارہا ہے۔