وزیر داخلہ بلوچستان کے وعدے کے برعکس لاپتہ افراد کی لاشیں مل رہی ہے – وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز

162

تمام مظلوم قوموں کو چاہیے کہ مشترکہ جدوجہد کی راہ اپنائے تاکہ اس ظلم سے نجات پاسکیں ۔ ماما قدیر بلوچ

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے قائم بھوک ہڑتالی کیمپ کو 3452 دن مکمل ہوگئے، بلوچ ہیومن رائیٹس آرگنائزیشن کے چیئرپرسن بی بی گل، وائس چیئر پرسن طیبہ بلوچ اور دیگر افراد نے لاپتہ افراد کے لواحقین کے بھوک ہڑتالی کیمپ کا دورہ کرکے اظہار یکجہتی کی۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اس موقعت پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم پچھلے دس سالوں سے ظلم و جبر کے خلاف سراپا احتجاج ہیں، دس سالوں سے بھوک ہڑتالی کیمپ لگا کر پرامن جدوجہد کے ذریعے ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں اس کے باوجود مقتدر اعلیٰ کے کانوں تک جوں تک نہیں رینگتی۔ کچھ دن پہلے وزیر داخلہ بلوچستان نے ہم سے وعدہ کیا کہ ہم لاپتہ افراد کی بازیاب کے لئے اپنا کردار ادا کرینگے لیکن لاپتہ افراد بازیابی کی بجائے ان کی مسخ شدہ لاشیں ہمیں تحفے میں ملے اور مزید لوگوں کو اٹھا کر لاپتہ کیا جارہا ہے، خضدار سے ڈاکٹر محمد آصف زہری کو حراست میں لیکر لاپتہ کیا گیا جبکہ تربت کے علاقے ہوشاپ سے پندرہ سالہ عارف ولد شاکر کو حراست میں لے کر لاپتہ کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں گمشدگیوں اور مسخ شدہ لاشوں کی بر آمدگی کے خلاف انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کئی بار پاکستانی حکومت کو تنبیہ کی ہے مگر اس کے باوجود پاکستانی فوج بلوچستان میں مسلسل انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتا آرہا ہے، اب دنیا اور انسانی حقوق کے ادارے زبانی تنبیہ کرنے کے بجائے عملی اقدام اٹھائیں۔

ماما قدیر نے مزید کہا کہ پاکستان میں نہ صرف بلوچوں کے ساتھ ایسا رویہ رکھا گیا ہے بلکہ آج بلوچوں کی طرح سندھی اور پشتون بھی لاپتہ ہورہے ہیں، ان کی بھی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہورہے ہیں، پشتونوں کو بھی دہشت گرد ظاہر کرکے انہیں بھی جعلی مقابلوں کے ذریعے مارا جارہا ہے لہذا تمام مظلوم قوموں کو چاہیے کہ مشترکہ جدوجہد کی راہ اپنائیں تاکہ اس ظلم سے نجات پاسکیں-