Symbol of Resistance اُستاد اسلم بلوچ – لطیف بلوچ

455

Symbol of Resistance
اُستاد اسلم بلوچ

تحریر: لطیف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

زندگی میں کبھی کھبی ایسے منحوس لمحات بھی آتے ہیں، دل جینے سے ٹوٹ جاتا ہے، وقتی طور پر مایوسی اور غم و الم کی کیفیت چھا جاتی ہے، آنکھوں سے آنسو اُبھرتے ہیں، دماغ سوچنا، دل دھڑکنا اور ہاتھ و پاؤں حرکت کرنا چھوڑ دیتے ہیں، جسم ساکت ہوتا ہے، ایسے لمحات اذیتوں، تکلیفوں اور دکھوں کا انبار انسان کو اندر سے کھوکھلا کردیتے ہیں۔ اور کھوکھلے وجود کے ساتھ زندہ رہنا بھی ایک بہت بڑی اذیت ہے۔ لیکن مقصد اور منزل کی حصول کے لیے ایسے لمحے بھی اُستاد کا کردار ادا کرتے ہیں، جو انسان کو کچھ سکھاتے ہیں، ایسے واقعات سے بھی جہد کار بہت کچھ سیکھتے اور سمجھتے ہیں، آنے والے چیلنجز سے نمٹنے کے لئے بہتر حکمت عملی اور پیش بینی کرسکتے ہیں۔ اُستاد اسلم بلوچ کی شہادت بلاشبہ ایک بہت بڑا المناک قومی سانحہ ہے، ایسے سانحات سے تحریکوں میں ایک خلا پیدا ہوتا ہے لیکن تحریک سے وابستہ ساتھیوں پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ ایسے حالات کا مقابلہ کس طرح کرتے ہیں۔ کس طرح اور کیسے اس المناک سانحے سے قوم اور جہد کار ساتھیوں کو نکالتے ہیں اور اُن کے حوصلوں کو گرنے و پست ہونے نہیں دیتے اور شہادت کا رتبہ پانے والے ساتھیوں کی خلا کو پر کرتے ہیں۔

اُستاد اسلم بلوچ کا کردار اتنا بلند ہے کہ ایسے کوئی الفاظ نہیں کہ اُن کے کردار کو بیان کرسکیں، وہ ہمت، جرائت، بہادری کا پیکر تھا، جو ہر مشکل اور کھٹن حالات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرتا رہا، کبھی مشکل حالات کے سامنے اُنکے عزم و حوصلے کمزور نہیں پڑے، بلکہ وہ مشکل سے مشکل حالات میں بھی صبر و استقامت کا دامن نہیں چھوڑا کیونکہ وہ ایک مکمل نظریاتی، باعلم اور باعمل انسان تھا وہ ایک دوست، ایک شفیق اُستاد، ایک دانشور، ایک زیرک سیاسی رہنما، ایک باصلاحیت کمانڈر تھا۔ اُنہوں نے بلوچ قومی تحریک اور مزاحمت سے تنگ نظرانہ خیالات، غیر نظریاتی رحجانات کا خاتمہ کرنے کے لئے بھر پور کردار ادا کیا، اُنہوں نے بلوچ نوجوانوں کو فرسودہ خیالات اور روایات کے زنجیروں سے آزاد کیا۔ اُنھیں نظریاتی اور سائنفکیٹ بنیادوں پر منظم کیا، تحریک کو ایک نئی جہت دی، بلوچ مزاحمتی تنظیموں کے درمیان اختلافات کے خاتمے، اتحاد و اشتراکی عمل کے لئے انتھک محنت اور کوششیں کیئے، اُنکے مخلصانہ کوششیوں سے بلوچ تحریک میں پائی جانے والی بداعتمادی کا خاتمہ ممکن ہوا۔ اُنکے بہترین حکمت عملی سے سیاسی اور مزاحمتی جمود اور مایوسی ٹوٹ گیا۔ اب ساتھیوں کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہیکہ وہ اُستاد اسلم بلوچ کے اصولوں کو اپنا کر جہد کاروں اور قوم کو متحد و منظم کرنے کے لئے کردار ادا کریں۔

دشمن کو شکست سے دوچار کرنا ہے اور دشمن کی سازشوں کو ناکام بنانا ہے تو بلوچ جہد کاروں کو اُستاد کے نظریے پر کاربند رہنا چاہیئے کیونکہ اُستاد جسمانی طور پر الگ ہوا ہے لیکن اُنکی سوچ و فکر اور نظریہ تاابد ہماری رہنمائی کرتا رہے گا، نظریہ فنا نہیں ہوتا، اُستاد اسلم ایک فرد نہیں ایک نظریہ ہے اور یہ نظریات ہر ایک جہد کار کا اثاثہ ہیں۔ جو یہ سمجھتے ہیں کہ اُستاد اسلم بلوچ کی شہادت سے تحریک کمزور ہوگی، جہد کار مایوس ہونگے وہ غلط سمجھ رہے ہیں، غلط اندازہ لگا رہے ہیں کیونکہ آزادی کی انقلابی تحریکیں شہادتوں سے مزید مضبوط و مستحکم ہوتی ہیں اور جہد کار ساتھیوں کے حوصلے مزید بلند ہوتے ہیں، دشمن کیخلاف نفرت اور تحریک کے لئے ہمدردی میں اضافہ ہوتا ہے، جس طرح چراغ کو جلائے رکھنے کے لئے ایندھن کی ضرورت ہوتی ہے اس طرح آزادی کی کاروان کو آگے بڑھانے کے لئے لہو کی ضرورت ہوتی ہے، لہو رائیگاں نہیں جاتا بلکہ لہو کی ہر قطرے سے ایک چراغ روشن ہوتا ہے، اُستاد اسلم بلوچ، سنگت رحیم مری، اختر بلوچ، سردارو بلوچ، فرید بلوچ اور سنگت صادق بلوچ نے ہزاروں چراغ روشن کیئے ہیں، ہزاروں جہد کار تیار کیئے ہوئے ہیں، اُنکی سوچ و فکر اور نظریہ اب ہر بلوچ کے ذہن میں پیوست ہے، ہر بلوچ وطن پر مرمٹنے کے لئے کمر بستہ ہے اور نوجوانوں کے حوصلے بھی بلند ہے۔

سپاہیانہ زندگی جو قسمت سعید ہے،
تو رزم گہ موت بھی سپاہیانہ عید ہے،
جیا تو فخر قوم ہے مرا تو وہ شہید ہے،
سروں سے باندھ کر کفن بڑھے چلو،
بڑھے چلو، دلاوران تیغ زن بڑھے چلو بڑھے چلو،
بہادران صفت شکن بڑھے چلو بڑھے چلو

قومی جہد اور تحریک سے وابستہ ہر جہد کار کو بخوبی علم ہے کہ اُنہوں نے جس راہ کا چناؤ کیا ہے، وہ پھولوں کا سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا بستر ہے، اس راہ پر سختیاں، تکالیف، تشدد، جیل و عقوبت خانے، مسخ شدہ لاشیں، پھانسی اور شہادت ہر قدم اور ہر موڑ پر استقبال کے لئے کھڑے ہیں لیکن جہد کار ان تمام آزمائشوں اور سختیوں کا پروا کئے بغیر انسانیت کی عظمت، قومی بقاء، آزادی و خوشحالی، نفرتوں، استحصال، ظلم و جبر اور لوٹ کھسوٹ سے پاک معاشرے اور آزاد سماج کی قیام کے لئے مشکلات اور مصائب سے ٹکرانے کے لئے زہنی و فکری طور پر ہمہ وقت تیار ہے۔اس لئے شہید اُستاد اسلم بلوچ کہتے تھے کہ ”ہم آزاد وطن یا مرگ شہادت کے فلسفے پر عمل پیرا ہیں”۔

اُستاد اسلم بلوچ کی بیٹی لکھتی ہیکہ میرے ابو ہمیشہ کہتے تھے کہ جنگ میں کچھ بھی ہو سکتا ہے، ہم سروں پر کفن باندھ کے نکلے ہیں اور ہم آخری دم تک لڑتے رہیں گے، ہم دشمن کے خوف سے چھپ کر نہیں بیٹھ سکتے، ہم اس کا سامنا کریں گے، ہمیں ہر طرح کی حالت کا سامنا کرنا ہوگا اور میرے بعد کبھی بھی مایوس مت ہونا، حوصلہ بلند کر کے آگے بڑھنا اور کبھی بھی اپنے قوم و لوگوں سے ساتھ بے ایمانی مت کرنا، راستہ لمبا اور مشکل ضرور ہے لیکن نا ممکن نہیں اور پھر میں کہتی آپ ایسے کیوں بول رہے ہیں، اللہ میری عمر بھی آپ کو دے اور وہ مسکرا کے کہتے بیٹی ہر طرح کے حالات ہم پر آسکتے ہیں میں تم لوگوں سے یہ امید نہیں کرتا کہ میرے بعد تم لوگ مایوس ہوجاو۔

اپنا حوصلہ مضبوط کر کے اسی رستے پر چلنا ہوگا، جتنی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑے، پیچھے مت ہٹنا، ثابت قدم رہنا۔ جب شہید اُستاد اسلم بلوچ کی بیٹی کے عزم و حوصلے اتنے بلند اور مضبوط ہیں، وہ قوم اور نوجوانوں کو تلقین کررہی ہے، اپنے عظیم والد کی نصیحت بتارہی ہے، بلوچ قوم و نوجوانوں کو اُستاد کے نصیحت پر عمل پیرا ہوکر مایوسی کے بجائے اپنے حوصلے بلند اور مضبوط کرکے ثابت قدم رہ کر وطن کی آزادی کے لئے جدوجہد جاری رکھ کر شہدا کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہیئے، شہداء کے خون کا بدلہ بلوچستان کی آزادی ہے کیونکہ ذلت اور غلامی کی زندگی سے عزت اور بہادری کی موت صد درجہ بہتر ہے۔
میں اپنے مضمون کا اختتام جوش ملیح آبادی کی اس شعر سے کرونگا۔
سنو اے ساکنانِ خطۂ پستی
ندا کیا آ رہی ہے آسماں سے
کہ آزادی کا ایک لمحہ بہتر ہے
غلامی حیاتِ جاوداں سے

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔