شیر زال – بیرگیر بلوچ

472

شیر زال

تحریر :بیرگیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

گورڈن چائلڈ نے اپنی کتاب “تاریخ میں کیا ہوا ” میں آثار قدیمہ کی شہادتوں کی بنیاد پر کہتا ہے کہ جدید پتھر کے زمانے میں عورتیں زمین جوتتی تھیں، اناج پیستی تھیں ،اور روٹی پکاتی تھیں اور اپنے دھاگے بنانے کے فن سے کپڑا تیار کرتی تھیں اور لباس سیتی تھیں ۔جب معاشرے میں کھانے اور لباس کی ابتدا ہوئی اور اس کے ساتھ ہی دوسرے لوازمات بھی وجود میں آنے لگے جن میں برتن بنانا اور زیب و زینت کے لیے زیورات کا استعمال تھا۔

قدیم تاریخ سے یہ بات ثابت ہوئی کہ ابتدائی دور میں مادرانہ نظام رائج تھا۔ جیسے جیسے نئی ایجادیں ہوتی رہی ان کی وجہ سے معاشرے کے ڈھانچے میں تبدیلی آتی رہی اور عورت اور مرد کے تعلقات بدلتے رہے ۔

دھاتوں کے زمانے میں انسانی تہذیب و تمدن میں ترقی ہوئی مگر معاشرہ طبقوں میں تقسیم ہوا اور ساتھ ہی عورتوں کا استحصال ہونے لگا۔

معاشرے میں آگے چل کر نجی ملکیت کا ادارہ مضبوط ہوا اس کے ساتھ ہی حکمرانی کے دستور اور ریاست کے ادارے پروان چڑھے اور اس طرح مرد کا تسلط معاشرے میں پوری طرح قائم ہوگیا۔ انہی تبدیلیوں کے نتیجے میں انسانی تہذیب و تمدن روایات اور ادارے مرد کے تابع ہوگئے اور نجی ملکیت نے عورت کی آزادی اورخودمختاری کو ختم کردیا اور وہ بھی بالآخر نجی ملکیت کا ایک حصہ بن کر رہ گئی، مادرانہ نظام میں انسانی مساوات، زندگی کا تقدس، انسان دوستی ، روشن خیالی، جمہوریت و اشتراکیت تھیں جب کہ پدرانہ معاشرے میں آمریت، فاشزم اور انفرادیت پرستی کا فروغ ہوا ۔

لیکن اسی پدرانہ معاشرے کے باوجود اس طبقاتی نظام میں بھی عورتوں نے تاریخ ساز کارنامے انجام دیئے سماجی تبدیلی کے عمل میں اگر عورت کی جدوجہد کے عظیم کردار کی اہمیت کودیکھیں تو اکتوبر سوشلسٹ انقلاب بھی عورتوں کی ہی جدوجہد کی وجہ سے ہی ممکن ہوسکا۔ انقلاب روس کے دوران روسی ماؤں کی جدوجہد کو میکسم گورکی اپنے ناول ‘ماں’ کو 1906ءمیں منظر عام پر لاکر نمایاں کیا ۔ جس میں پاول ولاسوف کی بوڑھی ماں کے کردار کو دیکھیں تو اس نے اسی طبقاتی سماج کے ستم برداشت کرکے جدوجہد کا آغاز کیا جب پاول ولاسوف کو سائبیریا جلا وطنی کی سزادی جاتی ہے، تو اسی دوران بوڑھی ماں لوگوں کے سامنے تقریر کرتی ہے اور کہتی ہے:
‘اگر ہمارے بیٹے جو ہمارے دل کے ٹکڑے ہیں۔ نظام کی تبدیلی کے لیے جان دے سکتے ہیں تو ہم اپنی جانوں کی قربانی کیوں نہیں دے سکتے’۔

آگے چل کر ہم اسی طبقاتی سماج میں جاری بلوچ قومی تحریک میں بلوچ ماؤں کےکردار کا جائزہ لیں تو ہمیں شہید مجید (اول،دوئم)اور شہید سگار کے عظیم ماں سے لیکر شہید ریحان جان کی ماں “اماں یاسمین” تک ایک مثالی اور تاریخی فرائض ادا کرتے ہوئے اپنے مادرگلزمین بلوچستان کی مکمل آزادی کیلئے اپنی ممتا کی ارمانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے تاریخ رقم کی ہے۔

اماں یاسمین نے جس بہادری اور دلیری سے اپنے جوان سال لخت جگر ریحان جان کو اپنے مچلتے ارمانوں اور امنگوں کی بھرپور جوانی میں مادروطن پر قربانی کیلئے رخصت کیا۔ اور ساتھ ہی اپنے شریک حیات بلوچ گوریلہ کمانڈر جنرل اسلم کی شہادت کے فوراََ بعد قوم کو مایوس نہ ہونے اور جدوجہد کو مزید تیز کرنے کی تلقین کرکے ایک رہنمایانہ کردار ادا کیا۔

اماں یاسمین نے جنرل اسلم کی شہادت کے بعد قوم بالخصوص نوجوانوں سے کہا کہ
” یہ نہ سوچیں کہ سب کچھ ختم ہوگیا بلکہ ایک استاد گیا ہے تو ہزاروں استاد موجود ہیں اور مزید پیدا ہونگے، جس طرح ریحان جان کے جانے کے بعد ہزاروں ریحان جان سامنے آئے۔ استاد اور ریحان جان نے اپنے قوم اور وطن کے لیے قربانی دی ہے ۔ اگر شہیدوں کے لہو کا حق ادا کرناہے تو ان کے فکر اور سوچ کو آگے بڑھائیں، جنگ کو نہیں چھوڑیں بلکہ اس میں مزید شدت لائیں۔ ہمیں دشمن کو اس طرح معاف نہیں کرنا ہے، آج نوجوان دشمن کو دکھائیں کہ جس طرح استاد کی سوچ و فکر تھی اور جنگ کو آگے بڑھا رہا تھا، اسی طرح نوجوان بھی جنگ کو آگے لیجائیں۔ میں جب تک زندہ ہوں بحیثیت قوم کی ماں سب کے ساتھ کھڑی ہوں۔”

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب عورتیں آزادی کی جدوجہد میں سرگرم ہوں تو زمین پر کوئی طاقت انھیں اپنے عرصہ زندگی میں آزادی حاصل کرنے سے نہیں روک سکتی۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں ۔