چینی تھنک ٹینک کا سی پیک بارے خطرات کی نشاندہی

256

چین کے معروف تھنک ٹینک نوفار انسٹی ٹیوٹ فار سٹرٹیجی اینڈ ڈیفنس اسٹیڈیز  نے پاک چین تعلقات اور سی پیک کے حوالے سے بڑھتے خطرات کی نشاندہی کی ہے اور چین کے ضمن میں پاکستان کے اردگرد سیکورٹی ایشو ز پر رپورٹ جاری کی ہے۔

چین کا کہنا ہے 300چینی یغور جنگجو داعش کا حصہ بن گئے ہیں جو عراق اور شام میں جنگ کر رہے ہیں انکا تعلق ترکستان اسلامک پارٹی سے ہے ، پاکستان سے ملحقہ چینی اکثر یتی مسلم آبادی کے صوبہ سنکیانگ سے چینی جنگجو تاجکستان ، افغانستان اور پاکستان کے راستے انڈیا سے برما اور پھر تھائی لینڈ ،ملائشیااور ترکی میں سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں جبکہ 300 سے زیادہ مشکوک یغور باشندوں کو چینی حکام نے تحویل میں لے رکھا ہے ان سے تحقیقات کی جارہی ہیں ۔

چین یغور جنگجووں کے فرار ہونیکا خفیہ اور زیر زمین روٹ بند کرانے کیلئے کوشاں ہے جو اڑمچی سے استنبول تک پھیلا ہوا ہے، 2018میں پاکستان کے اردگرد دہشتگردی خطرات کے حوالے سے رپورٹ جاری کی گئی ہےجس میں کہاگیا ہے میران شاہ وانا سے ملحقہ افغان سرحد پر واقع خوست اب بھی پاکستان دشمن قوتوں کا مرکز بناہوا ہے۔ پاکستان کیخلاف زیادہ تر دہشتگرد حملے یہیں سے پلانٹ کئے جاتے رہے ہیں۔

سی پیک کو تین مخالف قوتوں سے خطرات کا سامنا ہے ان میں تحریک طالبان پاکستان ، حکومت مخالف عناصر اور بی ایل اے اور  بلوچستان لبریشن فرنٹ شامل ہیں جو پاکستان میں نیشنل ہائی وے نیٹ ورک کیساتھ سی پیک منصوبوں کو نقصان پہنچاسکتے ہیں ۔

رپورٹ میں بھارت کی طرف سے سی پیک منصوبے پر تحفظات اور نفرت انگیز پروپیگنڈے کا بھی تذکرہ کیا گیا اور کہا گیا ہےبھارت کا دعویٰ ہے سی پیک کور یڈورکشمیر کے متنازع علاقہ سے گزر رہا ہے اس ضمن میں بھارتی وزیر اعظم مودی کے بیان کو بھی رپورٹ کا حصہ بنایا گیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کنیکٹویٹی کا مطلب دیگر اقوام کی خود مختاری کی نفی نہیں ہونی چاہیے۔

انڈین فارن سیکرٹری ایس جے شنکر کا دعویٰ تھا اکنامک کوریڈور غیر قانونی راستے پر بنایا جا رہا ہے جبکہ پاکستان نےبھارتی موقف مسترد کر دیا اور کہا گلگت بلتستان کے راستے سی پیک کوریڈور بنایا جا رہا ہے اور یہ علاقہ پاک چین بارڈر ایگریمنٹ 1963کا حصہ ہے چینی رپورٹ میں گوادر اور بلوچستان میں بعض قوم پرستوں کی شورش کے حوالے سے کہا گیا مشرف دور میں بلوچ قوم پرستوں کی شورش عروج پر تھی جسے طاقت کے ذریعے ختم کرنیکی کوشش کی گئی ،ریاست نے بلوچوں کے مسائل حل کرنے کیلئے سیاسی اور معاشی سطح پرکئی قابل ذکر اقدامات کئے جس سے شورش پر قابو پانے میں بہت مددملی تاہم علاقے سے جہادی گروپوں لشکر جھنگوی ، لشکر طیبہ جماعت الدعوۃ کو ختم نہ کیا جاسکا ۔