میرا استاد کمبر جان – محسن بلوچ

365

میرا استاد کمبر جان

تحریر: محسن بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

حضرت علی کا ایک قول ہےکہ جو شخص آپ کو اگر ایک لفظ بھی سکائے تو وہ آپکا استاد ہے، تو اسی بات سے آج میں اپنے استاد کمبر جان کے بارے میں کچھ قلمبند کرنا چاہتا ہوں۔ جس نے مجھے بہت کچھ سکھایا ہے اور ہمیشہ میری رہنمائی کی ہے، جو ہمیشہ میرا اُستاد رہے گا۔ اُس نے مجھے مشکلوں سے لڑنے کی تربیت دی ہے، مجھے اپنے آپ کو پہچاننے میں مدد فراہم کی ہے، جس کی تربیت اور رہنمائی کی وجہ سے میں جہد آزادی کی کاروان کا حصہ بنا ہوں۔ جسکی ہر بات اور نصیحت ہمیشہ سے میری رہنمائی کرتی آ رہی ہے۔ کمبر جان کی ہمت و حوصلے نے مجھے بہت کچھ سکھایا ہے۔ کمبر جان کی آنکھیں کام نہ کرنے کے برابر تھیں۔ مگر اسکے باوجود بھی وہ کتابیں پڑھتا تھا، اس کا کتابوں سے محبت میرے لئے ہی نہیں بلکہ ہر بلوچ طلباء و طالبات کیلئے مشعل رہا ہے۔ اسے پڑھنے کا بہت شوق ہے، جس کا ایک آنکھ تو مکمل کام نہیں کرتا ہے جبکہ دوسری آنکھ بھی بہت کمزور ہے، وہ خود بتاتا تھا کہ میں جب بھی کتاب کو سامنے کرتا ہوں تو میری آنکھیں جلنے لگتے ہیں، 5 پیج پڑھنا بھی مشکل ہوتا ہے مگر پھر بھی زور دیتا ہوں۔ جب اس نے یہ بات کہی تو بعد میں بہت زور سے ہنسنے لگا کہ یار میں یہ کہتے ہوئے شرمندہ محسوس کر رہا ہوں شاید آپ کو یہ لگتا ہے کہ میں کتابوں سے دور بھاگنے کیلئے بہانہ بنا رہا ہوں۔

یہ دنیا میں ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اگر کسی کو اپنے کام سے محبت ہو تو وہ ہر مشکل کو پار کرکے آگے بڑے گا۔ دن رات کام میں لگ جائے گا۔ اور آج جس مقصد کیلئے میں جدوجہد کر رہا ہوں یہ کوئی آسان ہدف نہیں بلکہ یہ ایک مشکل سفر ہے میں آج جس سفر پر گامزن ہوں یہ سارے شہیدوں کا سفر ہے، میں انہی شہیدوں کے سوچ کو آگے بڑھانے کیلئے زندہ ہوں۔ میں آج اپنے معصوم بچوں کی آنکھوں میں دیکھتا ہوں جو آزادی کیلئے ترس رہے ہیں، میں آنکھوں سے تو کمزور ہوں لیکن اس کے باوجود بھی مجھے کچھ تو سیکھنا چاہیئے۔ تاکہ میں بلوچ کے آنے والےمستقبل کو ایک راہ دکھا سکوں میں بلوچستان کی آزادی کیلئے لڑرہا ہوں، مجھے اتنا پتا ہونا چاہیے کہ میرا حق کیا ہے۔ میں ان مظلوم قوموں کو پڑھنا چاہتا ہوں جن کی خاموشی اور قابضوں کے خلاف جدوجہد نہ کرنے سے آج وہ دنیا کے نقشے سے غائب ہیں اور آج دنیا میں وجود نہیں رکھتے۔ میں کامیاب اور ناکام تحریکوں کو پڑھنا چاہتا ہوں۔ ان عظیم شخصیات کی زندگیوں کے متعلق پڑھنا چاہتا ہوں جنہوں نے جدوجہد کے دوران کافی نشیب و فراز کا سامنا کیا ہے تاکہ ہم بھی آنے والے مشکلات کا بہادری سے مقابلہ کر سکیں۔ آج جن ملکوں نے آزادی حاصل کیا ہے ان کی تحریکوں کو پڑھ کر ہی ہم اپنے جدوجہد کو کامیابی کی جانب گامزن کرنے کیلئے اچھے پولیسیز دے سکتے ہیں۔ مجھے نفسیات بھی پڑھنا ہے تاکہ میں اپنے عوام کا نفسیات پڑھ سکوں آج ہمیں اپنے عوام کو آزادی کے بارے میں آگاہ کرنا ہے جو قومیں بیدار نہیں ہوتے وہ زوال کا شکار ہوتے ہیں۔

میں نے کمبر جان کے بارے میں بہت سنا تھا لیکن میرا اس کے ساتھ کبھی ملاقات نہیں ہوا تھا، میں دوستوں سے اس کی تعریفیں ہمیشہ سنتا تھا کہ وہ بہت ہی مہروان شخص ہے، میرا ہمیشہ دل کرتا تھا کہ اس کے ساتھ ایک ملاقات ہو۔ ایک دن اچانک ہماری ملاقات ہوئی اور سلام دعا کے بعد ہم بیٹھ کر بات کرنے لگے وہ مجھ سے مخاطب ہوکر کہنے لگا کہ کیا کر رہے ہو؟ میں نے جواب دیا پڑھ رہا ہوں۔ سر ہلا کر کہنے لگا بہت خوب تو کیسا چل رہا ہے پڑھائی؟ میں نے نہایت ہی آداب سے جواب دیا جی اچھا جا رہا ہے۔ تو پھر مجھے نصیحت کرکے کہنے لگا کہ اپنا وقت ضیاع نہیں کرنا ہے، آپ کو کیونکہ آج جو موقع آپ کو ملا ہے شاید کل ایسا ماحول آپکو نصیب نہ ہو، اپنا ذہن فی الحال صرف اور صرف پڑھائی پہ دینا ہے آپ کو، تاکہ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی سکت آپ میں پیدا ہو۔

اسکے بعد ہمارے درمیان کئی ملاقاتیں ہوئیں وہ کبھی خاموش نہیں بیٹھتا تھا، جب بھی ہمارے درمیان ملاقاتیں ہوتی تھیں وہ کسی نہ کسی موضوع پر بات شروع کرتا تھا تاکہ بحث کا سلسلہ چلتا رہے، وہ ایک شخصیت سے بہت متاثر تھا وہ شخصیت ابراہام لنکن تھا۔

میری آخری ملاقات کمبر جان سے 13نومبر 2017کو ہوا اس وقت میں ایک سنٹر میں پڑھ رہا تھا، مجھے اچانک ایک دوست کا فون کال آیا، مجھ سے پوچھا کہاں پر ہو آجاؤ کسی سے ملاقات کرانا ہے، میں حیران تھا کہ کون ہو سکتا ہے، میں اسی سوچ میں مگن تھا کہ مجھ سے کون ملاقات کرنا چاہتا ہے اس وقت میرے ذہن میں کئی دوستوں کے نام آئے لیکن کمبر جان کی یاد نہیں آئی کیونکہ وہ مجھ سے رابطے میں تھا۔ جب بھی اُسے ملاقات کرنا ہوتا تھا وہ خود فون کرکے جگے کا بتایا کرتا تھا، دوست کے بتائے ہوئے جگہ پر جانے کیلئے رکشے میں سوار ہوا اور کچھ ہی دیر بعد وہاں پہنچ گیا، ان سے رابطہ کیا وہ ابھی تک نہیں پہنچے تھے۔ 5منٹ تک انتظار کرتا رہا پھر کال آیا کہ وہاں سے تھوڑا آگے آؤ تو میں وہاں گیا اور کچھ ہی دیر بعد وہ آئے تو میں نے دیکھا کہ کمبر جان اور دوسرے دوست ہیں۔ مجھے کمبر جان کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ مجھے دیکھ کر کمبر جان نے کہا کہ پاکستاں نے ہمیں بہت دور کر دیا ہے۔ کچھ کھا پی کر جلدی وہاں سے نکل گئے تاکہ کوئی ہمیں نہ دیکھے ہم نے آخری بار ایک دوسرے کو خدا حافظ کیا۔ آخری وقت اس نے کہا کہ ضرور ملیں گے اگر پاکستان نے موقع دیا۔ آج کمبر جان کو ایک سال کا عرصہ مکمل ہو چکا ہے مگر اس کا کوئی اتا پتا نہیں کہ وہ کس حال میں ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔