بلوچستان میں عدلیہ سے اعتماد اٹھ گیا ہے ۔بی ایس او

144

بی ایس او سمجھتی ہے کہ بلوچستان کا مسلہ ایک سیاسی مسلہ ہے اور اسے سیاسی طریقہ سے حل کیا جاسکتا ہے اس طرح کے غیر آئینی حربے ملک میں انسانی حقوق کے مسلئے کو مذید سنگینی کی طرف لے جاتے ہیں۔ جیئند بلوچ کی فوری بازیابی کا مطالبہ کرتے ہیں – سیکرٹری اطلاعات بی ایس او

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ گذشتہ شب تنظیم کے مرکزی سینئر جوائینٹ سکریٹری جیئند بلوچ کے گھر پر فورسز کی طرف سے چھاپہ مار کر چادر و چاردیواری کی پامالی، اہلخانہ اور گھر کے بزرگوں اور بچوں کو تشدد کا نشانہ بنانے اور تنظیم کے مرکزی جوائنٹ سکریٹری اور اس کے دس سالہ بھائی سمیت والد کی گرفتاری کی شدید الفاظ میں مزمت کرتے ہیں اور اسے انسانی بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی، اور ملکی آئین کی پامالی قرار دیتے ہیں۔

ترجمان نے کہا ہے کہ جیئند بلوچ ملتان یونیورسٹی کا طالب اور اس کا بھائی ہدہ اسکول میں مڈل کا طالب علم ہے۔ ان دونوں کا کسی ایسی سرگرمی سے کوئی تعلق نہیں رہا ہے کہ ان کو رات کی تاریکی میں اٹھا کر لاپتہ کیا جائے۔ بی ایس او ایک پر امن طلبا تنظیم ہے جو تعلیمی اداروں میں تعلیمی سرگرمی بحال کرنے طلبا کو نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ غیر نصابی ثقافتی اور علمی ادبی سرگرمیوں کی طرف راغب کرتا ہے تاکہ ایک صحت مند معاشرے کی قیام ممکن ہو سکے۔

انہوں نے مزید کہا کہ سنگت جیئند بلوچ کی گرفتاری بلوچستان کے حالات کو پھر سے خراب کرنے کی ایک کوشش ہے جو کئی دھائیوں کے بعد کافی حد تک معمول پر آئے ہوئے تھے۔ بی ایس او سمجھتی ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ ایک سیاسی مسئلہ ہے اور اسے سیاسی طریقہ سے حل کیا جا سکتا ہے اس طرح کے غیر آئینی حربے ملک میں انسانی حقوق کے مسلئے کو مذید سنگینی کی طرف لے جاتے ہیں۔ اس وقت بلوچستان میں ملکی اداروں کے حوالے سے مثبت سوچ نہیں پائی جاتی ہے اداروں اور عدلیہ پر اعتماد اٹھ گیا ہے۔ ملکی آئین اور قانون کو روندھا جارہا ہے ہر طرف جنگل کا قانون ہے جس سے چھوٹے قومیتوں کے اندر بے چینی پائی جاتی ہے۔

مرکزی ترجمان نے اس غیر انسانی و غیرآئینی اقدام کی پرزور مذمت کرتے ہوئے جیئند بلوچ کی فوری بازیابی کا مطالبہ کیا۔