رائے – نوروز لاشاری

214

رائے

نوروز لاشاری

دی بلوچستان پوسٹ 

ایک زندہ انسان جب کوئی ارادہ کرتا ہے تو اس کیلئے کچھ سوچتا رہتا ہے۔ اور اسکی سوچ و خیالات مختلف زاویئے یا باتیں سامنے لاتی رہتی ہے۔ اگر ان پر بھی سوچا جائے تو فائدہ لیا جا سکتا ہے۔ اس طرح میں بھی اپنے خیالات جو کہ مختلف وقت میں آتے رہے ان کو لکھ رہا ہوں، شاید ان خیالات کو سوچا گیا ہو یا ان پر عمل بھی ہو رہا ہے مگر رائے میرا لکھنا فرض ہے جو کہ پورا کر رہا ہوں وہ مندرجہ ذیل ہیں۔

۱۔صبر و برداشت:
گذشتہ واقعات کو سامنے رکھا جائے اور دیکھا جائے تو ہر عام انسان بھی اس بات کو سمجھ جائے گا۔ ہمارے جہد کار جو محاذ پر لڑ رہے ہیں یا سیاسی جہد کار جو سیاست کے میدان میں جہد کر رہے ہیں وہ تو صبر سے لبریز ہیں لیکن افسوس کہ ہماری لیڈر شپ میں صبر و برداشت کی کمی ہے۔ جس کی صورت ہم اکثر اوقات دیکھتے ہیں ہماری لیڈر شپ کو سوچنا ہوگا اور اس صبر و برداشت کے فوائد کو تحریک کے فوائد کی صورت میں دیکھنے ہونگے۔

۲۔انا بغض و ہٹ دھرمی:
سیاست و محاذ کی جدوجہد کو انا و بغض ہٹ دھرمی بھی نقصان دے رہی ہے۔ چھوٹے چھوٹے مسائل کو انا پر لے آنا اور خود کو دوسروں سے اعلیٰ سمجھنا تحریک میں تفریق کا باعث بن رہے ہیں۔ جو کہ کچھ ریاست کیوجہ یا کچھ اپنے کارکنان کی کان بھرنے کا عمل بھی کہا جا سکتا ہے۔

۳۔جرگہ صلح جوئی:
ہماری لیڈر شپ اور کارکنان کو چاہیئے کہ وہ صلح جوئی کی طرف قدم بڑھائیں۔ جرگہ کی صورت میں یا کسی اور صورت میں ۔اس کیلئے بزرگ شخصیات کو بیچ میں لیا جائے جو ہر حلیف کا مسئلہ سنیں اور آگے بھی ان کو حل کرنے کی کوشش کریں۔

۴ْ۔تحریک میں وسعت:
تمام تنظیم جو مسلح اور غیر مسلح ہوں ان کو تحریک کو پھیلانے کی کو شش بھی کرنی چاہیئے۔ جیساکہ بلوچستان کے فرنٹ لائینزحتیٰ کہ گوریلا جنگ بلوچ سرزمین کے ہر کونے کونے میں پہنچانا چاہیئے۔

۵۔سوشل میڈیا:
تمام تنظیموں کو فیک آئی ڈیز کے پراپگنڈے پر اپنی پالیسی مرتب کرنے سے نکلنا چاہیئے اور اپنے کارکنوں کو ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے سے روکنا چاہیئے۔ کئی ورکر غصہ و بغض میں خفیہ باتیں نام ظاہر کرتے ہیں جو کہ ہر طرح کے اختلافات کے باوجود دیکھا جائے تو بھی نقصان دہ ہے۔

۶۔ہیش ٹیگ:
بلوچستان کی آزادی اگر ہمارا مقصد ہے اور ہمارا مقصد ایک ہے تو ہماری آوازیں ایک جیسی کیوں نہیں؟ کیا ان آوازوں کے اختلافات اندرونی اختلافات ظاہر نہیں کرتے؟ اس لیئے ہمیں ایک ہیش ٹیگ پر متفق ہو کر اپنی آواز بلند کرنی چاہیئے تاکہ ہماری آواز میں طاقت ہو اور زیادہ دور تک گونجے۔

۷۔روزنامچہ:
ستر سالہ جدوجہد کو دیکھا جائے تو تحریک میں بہت لوگ قربان ہوئے کسی کی زندگی پر ہمارے لیے چند فقروں سے زیادہ معلومات نہیں۔ اسلئے چاہیئے کہ روزنامچہ لکھا جائے جس سے آگے آنے والی نسلوں کو حالات کی سختی، جہد کاروں کی قربانیوں کا اندازہ ہو۔

دی بلوچستان پوسٹ : اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔