نصیرآباد میں افغان مہاجرین کی بڑھتی ہوئی آبادی – سنگت طاہر میرانی

380

نصیرآباد میں افغان مہاجرین کی بڑھتی ہوئی آبادی

سنگت طاہر میرانی

دی بلوچستان پوسٹ

جعفرآباد و نصیرآباد بلوچستان کے وہ واحد اضلاع ہیں، جہاں پر چاول اور گندم کی کاشت پورے بلوچستان میں سب سے زیادہ ہوتی ہے اور یہ اضلاع بلوچستان کے گرین بیلٹ کے نام سے مشہور ہیں۔ یہاں بہت سے بلوچ ، سندھی اور سرائیکی قبائل آباد ہیں۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ یہ علاقے جتنے زرعی لحاظ سے مالامال ہیں، اتنا ہی ان علاقوں میں سہولیات کا فقدان ہے۔ نہ پینے کا پانی ہے، نہ اچھے ہسپتال، نہ کوئی بہترین تعلیم فراہم کرنے والے سکول یا کالجز۔ ان علاقوں کے بہت سے لوگ غریب طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، جن کا گزر بسر زراعت پر ہی ہوتا ہے۔

اب ان اضلاع میں بڑھتی ہوئی افغان مہاجرین کی آبادی اور مذہبی انتہاپسندی نے مجھے مجبور کر دیا ہے کہ میں اپنے خیالات کا اظہار کروں۔ پہلے سے بلوچستان کے بہت سے بلوچ پشتون اضلاع میں افغان مہاجرین کی نشان دہی کی گئی ہے اور اب بلوچستان کے ان پُرامن اضلاع میں بھی ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت افغان مہاجرین کو آباد کر کے مقامی قبائل کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی مذموم کوششیں جاری ہے۔

بلوچستان کے مختلف اضلاع جن میں چاغی، نوشکی، دالبندین، کوئٹہ، پشین، چمن، قلعہ عبداللہ و دیگر بہت سے علاقوں میں افغان مہاجرین کے بارے میں انکشافات کیئے گئے ہیں کہ انہیں شناختی کارڈ اور لوکل سرٹیفکیٹ تک فراہم کیئے جاتے رہے ہیں۔ وہاں کے عوامی حلقوں میں تشویش کے باعث آئے روز وہاں کے لوگ اب مہاجرین کے انخلاء کا مطالبہ کرتے نظر آتے ہیں۔ اب جعفرآباد و نصیرآباد میں بھی افغان تارکین وطن ایک وائرس کی طرح پھیلتے جا رہے ہیں۔ وہ زمینیں، دکانیں، جائیدادیں خرید رہے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ مقامی لوگوں کے ساتھ رشتہ داریاں تک کر رہے ہیں۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے انہیں ایک منظم طریقے سے آباد کرنے میں ہمارے اپنے ہی علاقے کے سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور حکومتی افراد کی پشت پناہی شامل ہے۔ اگر ہم افغان مہاجرین کی آبادی کے خطرناک نتائج دیکھیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ بلوچستان کیا، پاکستان کے کسی بھی علاقے میں جب کوئی دہشت گردی کی کارروائی ہو یا خودکش دھماکہ بھی ہو، اس میں اکثر افغان مہاجرین ملوث نکلتے ہیں۔

جس طرح کوئٹہ میں افغان مہاجرین کو شناختی کارڈ فراہم کر کے انہیں ایک پاکستانی شہری بنایا جاتا رہا ہے، اسی طرح اب انہیں بلوچستان کے دیگر اضلاع میں آباد کر کے یہی قصے کہانیاں دہرائی جا رہی ہیں۔ افغان تارکینِ وطن انتہا پسندی، مذہبی، عسکریت پسندی اور فرقہ واریت پوری ملک میں‌لے آئے۔ ہم جہاں کہیں بھی انتہا پسندی ، مذہبی جنونیت دیکھیں اس کے پیچھے ہمیں افغان مہاجرین ہی نظر آتے ہیں۔

جعفرآباد و نصیرآباد میں تمام مذاہب کے لوگ نہایت ہی عقیدت اور احترام کے ساتھ رہتے ہیں، مگر مہاجرین کی بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث خدشہ ہے کہ اس پُرامن علاقے کے امن کو بھی تباہ کر دیا جائے گا، جیسا کہ انہوں نے افغانستان و دیگرممالک میں کیا۔ اسی اثناء میں غیرمقامی لوگوں کا بلوچ علاقوں میں آباد ہونا اور وہاں جائیدادیں بنا کر لوکل سرٹیفکیٹ اور شناختی کارڈ بنانا سمجھ سے بالاتر ہے۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کی جانب سے لگاتار یہ مطالبہ بھی کیا جاتا رہا ہے کہ افغان تارکینِ وطن جن کی بلوچستان میں اس وقت تعداد 3 سے 4 ملین تک ہے، انہیں ان کے ملک واپس بھیجا جائے۔ نیز وہ یہ بھی مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ افغانوں کو جو جعلی لوکل سرٹیفکیٹ اور شناختی کارڈ بھی بلوچستان میں فراہم کیئے گئے ہیں، انہیں منسوخ کیا جائے۔

ماضی میں بھی ہمیں ایسے بہت سے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں کہ جن میں نادرا کے ملازمین افغان شہریوں کو شناختی کارڈ فراہم کرنے میں مددگار ثابت ہوئے اور انہیں پاکستانی خفیہ اداروں کی طرف سے گرفتار بھی کیا گیا، نیز انہیں 17سال کی سزا تک سنائی گئی۔ جب چھٹی مردم شماری کا آغاز 2016 میں ہوا تو بہت سے بلوچ قوم پرستوں نے اس کی مخالفت کی، کیوںکہ اس وقت بلوچستان کے بہت سے علاقوں میں افغان مہاجرین کی بہت بڑی تعداد موجود تھی۔

بعض پشتون قوم پرستوں نے بھی افغان پناہ گزینوں کی مدد کی تاکہ سیاسی حاکمیت کے لیئے اپنا ووٹ بینک بڑھا سکیں، کیونکہ زیادہ تر افغان مہاجرین پشتون علاقوں میں ہی آباد ہیں، جہاں انہیں شناختی کارڈ کی فراہمی بھی آسانی سے ہوتی نظر آتی ہے۔

بلوچستان سے بہت سے مقامی کاروبار حتیٰ کہ نوکریوں پر بھی انہی غیر مقامی افراد کا قبضہ نظر آتا ہے۔ جس سے بلوچستان میں بے روزگاری میں بھی اضافہ ہوا ہے اور مقامی لوگ نوکریوں اور دیگر سہولیات سے بھی محروم ہیں۔

بلوچستان کو اس وقت بہت سے مسائل کا سامنا ہے، ان میں سے ایک افغان تارکینِ وطن کی آمد ہے۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ سنگین مسائل میں سے ایک بلوچستان میں تارکینِ وطن کے لیئے سینکڑوں و ہزاروں کمپیوٹرائیزڈ شناختی کارڈز (سی این آئی سی) کی فراہمی کا مسئلہ ہے۔ یہ ایک بہت ہی سنگین مسئلہ ہے کیونکہ یہ ڈیموگرافکس میں تبدیلی کا نتیجہ بنے گا اور بلوچ اکثریت کو بلوچستان میں اقلیت میں تبدیل کر دے گا۔

اس لیئے ہم سمجھتے ہیں‌ کہ افغان مہاجرین کے پُرامن و باعزت انخلاء کو یقینی بنا کر بلوچستان سمیت پاکستان بھر میں دہشت گردی ، بے روزگاری سمیت دیگر معاشی مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔