فلسفہِ قربانی شہید ریحان بلوچ – لطیف بلوچ

680

فلسفہِ قربانی شہید ریحان بلوچ

تحریر: لطیف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ریحان کے عظیم کارنامے و شہادت کا سُن کر اور اُنکے عظیم ماں و باپ کو اُنھیں اُنکے مشن پر رخصت کرنے کے مناظر دیکھ کر مجھ پر سکتہ طاری ہوگیا، میں غموں کے سمندر کی گہرائی میں غوطہ زن ہوا، دل و دماغ ایک عجیب کیفیت کا شکار ہوگئے اُن کے عمل کے سامنے ہم جیسے بے عمل انسان اپنے آپ کو انتہائی کمزور اور چھوٹا محسوس کرتے ہونگے، میں نے اُن کی عظیم قربانی پر کچھ لکھنا چاہا، بہت کوشش کی لیکن دل و دماغ اور قلم نے ساتھ نہیں دیا میں کچھ نہیں لکھ سکا، بہت کوشش کیا لیکن اُنکے عمل کے سامنے میرے الفاظ چھوٹے پڑ گئے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ ریحان ہمارے لفاظی تعریف اور ٹوٹے پھوٹے چند بے ربط اور بے عمل الفاظ کا محتاج نہیں کیونکہ وہ اپنے عمل سے ایک عظیم رتبے پر فائز ہوگئے ہیں۔

عظیم ماں کی ہمت اور اُس کی عظمت کو لاکھوں سلام جو اپنے لخت جگر کو گلے سے لگاکر رخصت کرکے کہہ رہی ہے، جاؤ میرے لال میں نے آپ کو وطن کے لیئے قربان کردیا، پنجابی قبضہ گیر کو یہ سمجھ لینا چاہیئے کہ بلوچ ماؤں کی یہ ہمت اور بلوچ فرزندوں کے وطن کے لیئے قربانی کا یہ جذبہ اُن کے ناپاک عزائم کو کسی صورت کامیاب نہیں ہونے دے گی، 71 سالہ ظلم و جبر اور مادر وطن، اور بلوچ ماں و بہنوں کی حرمت روز روز کو تار تار کرنے، اغوا کرکے کیمپوں میں جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کی دل دہلادینے والے واقعات نے بلوچ نوجوانوں کے خیالات بدل دیئے ہیں، وہ کم ظرف، بزدل قبضہ گیروں اپنے وطن سے نکالنے اور اپنے آزادی کو حاصل کرنے کے لیئے اپنے جسموں پر بم باندھ کر اپنی جان فدا کررہے ہیں، ایک ماں اور باپ کی قربانی کا یہ فلسفہ آزادی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو زمین بوس کر دینگے، ریحان کی ماں نے اُنہیں سپرد وطن کیا، وہ سمجھتی تھی کہ ریحان دھرتی ماں کی بیٹا ہے۔

ریحان نے اپنے خوشبو سے سرزمین بلوچستان کے فضاء کو معطر کردیا، اُنکے لہو کے رنگ نے تحریک آزادی کو ایک نئی جہت اور سُرخی بخشا ہے، ریحان نے اپنی جان اپنے مقصد کے لیئے قربان کرکے تحریکی ساتھیوں اور جہد کاروں کے کندھوں پر ایک بھاری ذمہ داری ڈال دی ہے، اب اُنکے مقصد کو آگے بڑھانا، اُن کی سوچ و فکر اور نظریہ کو مضبوطی سے تھام لینا ہر ایک بلوچ جہد کار کا قومی فرض اور ذمہ داری بن چکا ہے، ریحان نے اپنے مقصد پر جان قربان کرکے یہ ثابت کردیا کہ جب مقصد عظیم اور منزل حسین ہو پھر جان کی قربانی کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ میں ذاتی طور پر ریحان کو نہیں جانتا، اُن سے کھبی ملاقات نہیں ہوا لیکن جب سے میں نے اُنکا تصویر دیکھا ہے میں ہر پل یوں محسوس کرتا ہوں کہ وہ میرے ساتھ تھا، میں نے اپنے وجود سے کوئی چیز کھویا ہے، اس بات پر میں نے بہت سوچا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے، اپنا کوئی قریبی خونی رشتہ دار چھوڑ کر چلا جائے اتنا درد محسوس نہیں ہوتا لیکن ایک نظریاتی و فکری ساتھی کے الگ ہونے سے انسان اندر سے ٹوٹتا ہے، کیونکہ نظریاتی رشتے اور فکری ہمسفری تمام رشتوں اور ناطوں سے عظیم ہوتے ہیں۔

بالاچ کے شہادت پر نواب خیر بخش مری نے کہا تھا “بالاچ زندہ رہتا، تکلیف میں رہتا، بھوکا رہتا، کام کرتا رہتا۔ شاید یہ باپ کی حیثیت سے میرے احساسات ہیں، قومی غرض کی لیئے اُس کا مزید رہنا شاید اچھا ہوتا۔ ایک بالاچ نہیں ہزاروں کی تعداد میں باپوں کے بیٹے اور بیٹوں کے باپ مارے گئے۔ بلوچوں میں ایک کہاوت ہے، میں اُس کی ماں کا شوہر نہیں لیکن وہ میری اولاد ہے۔ میری ان اولادوں کا دکھ اگر ایک منٹ مجھے ستائے گا، تو یہ شاید پانچ منٹ ستائے گا۔ دونوں کا دُکھ برابر کہوں توشاید جھوٹ ہوگا۔ لیکن یہ میرے شعور کی کمی ہے، جذباتیت نہیں ہے، لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ میرا بیٹا اگر چھت ہے تو دیواریں یہ دوسرے بلوچ ہیں، رسم ہے کہ گاؤں میں کوئی مرجائے تو روٹی نہیں پکاتے، لیکن اگر اپنا کوئی مرجائے تو روٹی پکانے کو دل چاہتا ہی نہیں، بالاچ کا مرنا دکھ کی بات، لیکن ضرورت تھی قوم کو اُس کی، کام آگیا۔ زندہ رہتا مزید کام کرتا تو مجھے بہت خوشی ہوتی۔ تھوڑی روٹی ملتی، مشقت میں رہتا تو کندن ہوتا جاتا، دمکتا جاتا۔”
میں سمجھتا ہوں اگر ریحان مزید زندہ رہتا اور زیادہ کام کرتا تحریک کو آگے بڑھاتا، اُن کی اب تک تحریک کو ضرورت تھی کیونکہ ایک ایسا پُرعزم نوجوان جو اپنے مادر وطن سے بے پناہ محبت کرتا ہو اور اپنے جان کو سرزمین کی امانت سمجھتا ہو تو ایسے نوجوان تحریکوں کے کامیابی کی ضمانت ہوتے ہیں، جو اپنے نظریہ اور فکر سے قوم و تحریک کی رہنمائی کرتے ہیں۔ نوجوانوں کو راستہ دکھاتے ہیں، اگر آج اس عمر میں ریحان کا یہ جذبہ تھا وہ آگے بڑھ کر مزید وسعت اور پختگی حاصل کرتا، یہ میرا سوچ ہے لیکن اُنہوں نے اپنے راستے کا تعین، موت کا انتخاب خود کیا تھا، اُس میں پختگی تھا اُنہوں نے جذباتیت کے بجائے ایک شعوری فیصلہ کیا، وہ شاید یہ سمجھتا تھا کہ دشمن کو ضرب لگانے کے لئے اگر میں اپنے جان سے گزر جاؤں تو یہ کوئی گھاٹے کا سودا نہیں، اُنکا تحریک سے وابستگی خالصتاً ایک نظریاتی وابستگی تھا جس میں کوئی نمود و نمائش، لالچ، حرص اور صرف باتوں کی حد تک ہیرو ازم کا عنصر شامل نہیں تھا، وہ ایک باعمل نوجوان تھا جس نے شہیدا کی فکر اور شہید مجید و شہید درویش کی سُنت پر عمل کیا اور بلوچ تاریخ میں ہمشہ کے لئے امر ہوگئے۔

ریحان نے اپنا قومی فرض نبھا کر تحریک کو مضبوط بنیاد فراہم کرکے ایک نئے موڑ پر لاکھڑا کیا اب اُنکے ہم سب قرض دار ہے ریحان نے بچپن سے جو سوچا تھا جس مقصد کے لئے وہ ذہنی و فکری طور پر ہمہ وقت تیار تھا اُنہوں نے اپنا وہ مشن پورا کیا، ریحان کے خلوص اور ایثار قربانی و وطن پر مرمٹنے کا فلسفہ قابل تحسین اور قابل فخر اور آنے والے نسلوں کے لیئے مشعل راہ ہے۔

دی بلوچستاں پوسٹ : اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔