آخری سانس تک کی لڑائی – فرید شہیک

441

آخری سانس تک کی لڑائی

تحریر: فرید شہیک

دی بلوچستان پوسٹ 

ہم سلام کرتے ہیں ایسے بہادر نوجوانوں کو جن کے ہاتھ میں آخری سانس تک بندوق تھے، ایسے قوم دوستوں کو ہم سلام پیش کرتے ہیں، آپ لوگوں نے شہید درویش جیسے عظیم شخص کی داستان سنی اور دیکھی ہوگی، شہید درویش اپنی آخری ویڈیو میں آخری وقت تک ہنستا رہتا ہے کہ میں قوم کا بہادر بیٹا ہوں، مجھے کوئی غم نہیں کہ آج میں شہید ہو رہا ہوں، مجھے اللہ نے پیدا کیا ہی اسلیئے ہے کہ اپنے وطن کی حفاظت کروں۔ آج میں اپنی زمین اور وطن کی آزادی کی خاطر اپنی جان قربان کرتا ہوں اور اس مادر وطن کے گود میں سو جاتا ہوں.

آپ لوگوں نے ایک اور بہادر کا نام سنا ہوگا، شہید شیہک جان کے نام سے لوگ اسے جانتے ہیں، وہ ایک عظیم شخص تھا، وہ.مشکے کے ایک چوٹت ست گاؤں میہی میں 1981 کو محمد حسین کے ہاں پیدا ہوا اور بہت مشکلات کا سامنا کیا۔ شیہک جان ایک زمیندار تھا، وہ بہت خوش مزاج تھا، اپنے دوستوں کو اپنے خوش مزاجی سے اپنے قریب رکھتا تھا۔ شیہک جان 2002 میں بی ایل.ایف کے ساتھ ہو لیتا ہے اور ہر کام.اپنے ذمے لیتا ہے، پھر بہت جلد کمانڈر بن جاتا ہے۔ وہ 2105 کو اپنے ابو کے انتقال کے بعد اپنے گاؤں جاتے ہیں اور صبح 5 بجے پاکستانی آرمی بڑی تعداد میں شہیک جان اور ان کے ساتھیوں کو گھیرے میں لیتا ہے۔ وہاں شیہک جان اپنے بھائی ذاکر اور ماما سفر خان اور 9 دیگری ساتھوں سمیت وطن کے عشق میں شہادت قبول کرتا ہے۔ وہ اپنے آخری سانس تک بندوق ہاتھ میں لیئے یہی پیغام دیتا ہے کہ ایسا کام نہیں کریں کہ قوم اور جہد کو نقصان پہنچے. وہ آخری سانسوں میں اپنی ماں کیلئے یہ پیغام چھوڑتا ہے کہ میری ماں میرے لیئے پریشان مت ہونا، میں ایک عظیم کام کے لیئے شہید ہو رہا ہوں اور میرے بچے میرے اوپر فخر کرو، میں نے دشمن کو پیٹھ نہیں دِکھایا. ایسے بہادر نوجوان کو ہم کبھی نہیں بھولیں گے۔

اس بہادر قوم کے ایک اور سپاہی شہید کہری مری کوہلو میں شہید ہوئے، وہ اپنے بیٹوں کے ہمراہ قوم کے خاطر قربان ہوگئے لیکن ہتھیار نہیں پھینکے۔ میں سلام کرتا ہوں ایسے بہادر اور قوم دوست کو، شہید کہری مری کے ہاتھ میں آخری وقت تک بندوق تھا، یہی ہے قوم.کے شہید انہی کو تاریخ یاد کرتا ہے۔ شہید کہری مری 2018 میں شہادت نوش کرتے ہیں.

ایک اور بہادر سرمچار کی مثال.دیتا ہوں، شہید رحمت مشکے میں عبدالکریم کے ہاں پیدا ہوا، اور اسی طرح مادر وطن پر آخری وقت تک لڑتے ہوئے قربان ہوگیا۔ ان شہیدوں کی اور کتنے مثال دوں؟ شہید رحمت مشکے کے ایک.چھوٹے سے گاؤں بوزی میں مقابلے میں شہید ہوگئے اور شہید رحمت کے شہید ہونے کے بعد شہید کا دو بیٹے اس دشمن سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔

مند میں شہید ڈاکٹر خالد و دلوش نے بھی اسی طرح اپنے لہو سے سرزمین کو لال کیا، شہید ڈاکر خالد 1967 کو مند کے علاقے میں حاجی عالی کے ہاں پیدا ہوئے اور 2007 کو شہید ہوئے۔ دشمن خوش نہ رہے کہ اس نے ڈاکٹر خالد جیسے ایک سرمچار کو شہید کردیا۔ آج ہر سرمچار ڈاکٹر خالد کے جہد کو آگے لیجانے کے لیئے، دشمن کے خلاف لڑ رہا ہے اور ہر طرح کی قربانی دے رہے ہیں۔