چین کا افغانستان میں فوجی اڈے کے قیام کا منصوبہ

248

افغان حکام کا کہنا ہے کہ پڑوسی ملک چین کو افغانستان سے خفیہ طور پر چین آنے والے ممکنہ جنگجوؤں کے حوالے سے خدشات ہیں۔ افغان حکومت کے مطابق کابل اور بیجنگ کے درمیان ایک فوجی اڈے کے قیام کے حوالے سے بات چیت بھی ہو رہی ہے۔

اطلاعات کے مطابق یہ فوجی اڈہ افغانستان کے دور دراز پہاڑی علاقے، جسے عرف عام میں واخان کی پٹی بھی کہا جاتا ہے، میں تعمیر کیا جائے گا۔ واخان میں بعض عینی شاہدین کے مطابق انہوں نے وہاں چینی اور افغان فوجی دستوں کو مشترکہ گشت کرتے بھی دیکھا ہے۔

چینی صوبے سنکیانگ سے متصل افغانستان کا یہ برفیلا اور بنجر علاقہ باقی ماندہ ملک سے اتنا الگ تھلگ ہے کہ وہاں رہنے والوں میں سے بیشتر کو ملکی انتشار کا اندازہ ہی نہیں۔ واخان کے باسی سخت لیکن پُر امن زندگی گزارتے ہیں۔

وہاں کے رہائشیوں کے مطابق وہ پڑوسی ملک چین کے صوبے سنکیانگ کے لوگوں سے مضبوط روابط برقرار رکھتے ہیں اور چینی سیاحوں کی دلچسپی اس علاقے میں بہت زیادہ ہے۔

دوسری جانب چین کے واخان میں ایک ملٹری بیس بنانے کے منصوبے کے پس پردہ یہ مقصد بھی ہے کہ چینی صدر اپنی اقتصادی اور جغرافیائی سیاست کا دائرہ کار وسیع کرنا چاہتے ہیں۔

بیجنگ کو خدشات ہیں کہ مشرقی ترکستان اسلامی موومنٹ کے جلا وطن ایغور کارکن واخان کی پٹی کے راستے سنکیانگ میں داخل ہو کر وہاں دہشت گردانہ حملے کر سکتے ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق ایسے خدشات بھی ہیں کہ عراق اور شام سے فرار ہونے والے شدت پسند گروہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کے ارکان وسطی ایشیا اور سنکیانگ کے راستے افغانستان پہنچ سکتے ہیں یا پھر واخان کی پٹی یا کوریڈور کے راستے چین میں داخل ہو سکتے ہیں۔

افغان وزارت دفاع کے نائب ترجمان نے اے ایف پی کو بتایا کہ افغان اور چینی حکام کے درمیان گزشتہ برس دسمبر میں اس حوالے سے تبادلہء خیال ہوا تھا تاہم کئی تفصیلات ابھی وضاحت طلب ہیں۔

کابل میں چینی سفارت خانے کے ایک اعلی ٰ اہلکار نے تاہم اس موضوع پر بات کرتے ہوئے صرف اتنا ہی کہا، ’’چین افغانستان میں صلاحیتیں اور استعداد بہتر بنانے کے لیے تربیت فراہم کر رہا ہے۔‘‘

اس سے قبل بعض امریکی حکام افغانستان میں سکیورٹی کے حوالے سے چین کے تحفظات کا خیر مقدم کرتے ہوئے پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ امریکا کو بھی وہاں سلامتی کے ایسے ہی خدشات ہیں۔

واخان میں رہنے والی کرغز نسلی اقلیت کے کئی افراد نے گزشتہ برس اکتوبر کے مہینے میں اے ایف پی کو بتایا تھا کہ وہ کئی مہینوں سے اس علاقے میں چینی اور افغان فوجیوں کو مشترکہ گشت کرتے دیکھ رہے تھے۔ تاہم چین اور افغانستان دونوں ممالک کی حکومتوں نے ایسے دعووں کو مسترد کر دیا تھا۔