میں باغی- حکیم لاسی

695

جب میں بچپن سے لڑکپن میں داخل ہوا تو اپنے ارد گرد اپنے جیسے کئی بد حال اور پھٹے کپڑوں میں اپنے جیسے کئی بچے دیکھے، چار روپوں کیلئے مارکیٹوں میں عورتوں کو دکانداروں کے ہاتھوں تذلیل ہوتے دیکھا، اسکول کے باہر چھولے والے کو نم آنکھوں سے گھورتے معصوم بچوں کو دیکھا۔

بیمار بیٹے کو بیس کلومیٹر دور کاندھوں پر اٹھا کر ہسپتال چلتے بے بس باپ کو دیکھا، گدھے گاڈی پر سو روپے کے عوض بوڑھے ضعیف کو بوریاں ڈھوتے دیکھا، ڈگریاں حاصل کرنے والے نوجوانوں کو بے روزگاری کے سبب سسکتے ہوئے خودکشی کرتے دیکھا۔

اپنی بوڑھی ماں کو سیٹوں اور بڑے بڑے افسروں کے گھر جھاڑو پونچھا کرتے اور برتن دھوتے دیکھا، غربت کے سبب ماں قریب گھروں میں کام کیا کرتی تھی اور ان کے جھوٹے کھانے جو بچ جاتے تو شام کو ماں ایک پرانے برتن میں ہمارے لیئے لاتا، تو اس دن جیسے ہمارے لیئے عید کا دن ہوتا، ہم اچھل اچھل کے ماں کے کندھوں پر چڑھتے اور خوش ہوتے کہ آج اچھا کھانا ملے گا، علاقے کے سرکاری اسکول میں پڑھنے جاتے، تو کالے رنگ کی وردی ہوتی لیکن ہمیں غربت نے ایسے جکڑا تھا کہ ہم اس کالے وردی کو پہننے کیلئے ترستے ہی رہے۔ جب اتوار کو چھٹی ہوتی، تو میں بھی شروع شروع میں ماں کے ساتھ سیٹ کے گھر جاتا، سیٹ پنجاپ کا رہنے والا تھا، اس کے بچے صاف ستھرے کپڑے پہنے ہوتے، میرے ہم عمر بچوں کے پاس طرح طرح کے کھلونے ہوتے تھے۔

سیٹ ہمارے علاقہ حب کے سب سے بڑے کمپنی میں منیجر تھا، جب میں انہیں دیکھتا انکے گھر کے شان بان کو دیکھتا انکی گاڑیاں، گارڈن، گھر پر لگا ہوا دلکش پینٹ دیکھتا، تو واپسی پر ماں سے معصومانہ انداز میں سوال کرتا کہ، وہ اتنے امیر ہیں اور ہم کیوں ان کی طرح امیر نہیں؟ ان کے بچے گاڑیوں میں اسکول آتے جاتے ہیں جب کے ہمارے پاوں میں چپل تک کیوں نہیں ہوتی؟

تو ماں کہتی بیٹا، انہیں یہ سب خدا نے دی ہے، ان کا نصیب اچھا ہے، وہ امیر ہیں۔ ماں کی ان باتوں کو سن کر میں سوچتا پانچ وقت کی نماز تو میری ماں بھی پڑھتی ہیں، پھر خدا میری ماں کی نصیب کو اچھا کیوں نہیں بناتا؟ کیا کہیں ہم بہت گنہگار تو نہیں؟ایسے عجیب سوال میرے ذہن میں اکثر آتے رہتے۔

اکثر اس حالت پر ندامت ہوتی تھی کہ میرے باپ دادا نسلوں سے لسبیلہ کے باسی ہیں، پھر بھی ہم اتنے غریب کیوں ہیں، کاش ہم بھی کسی اور جگہ سے تعلق رکھتے، تو یہاں آکر امیر بن جاتے. میری ماں کو بھی کہیں کام کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

جیسے تیسے کر کے جب میں پرائمری پاس کر کے ہائی سکول تک پہنچا، ہائی اسکول میں کچھ دن ہوئے تھے میں نے دیکھا کے بلیک بورڈ پر کسی اسٹوڈنٹ نے بی ایس او لکھا تھا، اس وقت تو یہ تین لفظ میرے سمجھ میں نہیں آئے لیکن پھر آتے جاتے وقت راستے میں دیواروں پر نعرے لکھے دیکھنے کو ملتا تھا اور ہر نعرے کے نیچے بی ایس او لکھا ملتا تھا۔ روز کا یہ معمول، مجھ میں یہ جستجو پیدا کر چکا تھا کہ یہ سب کیا ہے۔

ہمارے اسکول میں ایک سرکل بھی کچھ لڑکوں کا لگتا تھا، معلوم کرنے پر پتہ چلا کے یہ بی ایس او والے ہیں. وہ تمام میرے ہم عمر ہی تھے، ان سے قربت بڑھانے میں مجھے کوئی دقت پیش نہیں آیا. جب میں ان کے قریب ہوا ان کو دیکھا ان کے لیکچر غور سے سننا شروع کیا، تو آہستہ آہستہ سمجھ آنے لگا کے ہماری غربت ہماری بد حالی ہماری نصیب میں خلل و بددیانتی خدا نے نہیں بلکہ پنچابی نے ڈالی ہے، ہمارے وسائل، ہماری شناخت، ہماری ذمین گو ہر شے پر پنجابی کا قبضہ ہے۔ یہاں تک جس سیٹ کے گھر میں میری ماں برتن دھو رہی ہے اور جس سیٹ کو اپنے لیے مسیحا سمجھتی ہے، دراصل ہمارے غربت و بد حالی کے ذمہ داروں میں سے ایک وہ ہے۔ مجھ سمیت بی ایس او سے تعلق رکھنے والے میرے اور بہت سے سنگت اب یہ بات بخوبی جاننے لگے تھے، اب بہت کچھ سمجھ چکے تھے اور بہت کچھ سیکھ چکے تھے۔

جب یہ باتیں میں اپنے رشتہ داروں یا اپنے محلہ والوں سے کرتا تو وہ مجھے کہتے تھے، تم بی ایس او والوں کی باتیں مت کرو، وہ تو سب دری ہیں باہر سے آئے ہیں، کوئی مکران سے آیا ہے، تو کوئی جھالوان سے اور تو اور یہ بی ایس او والے جام صاحب کے خلاف باتیں کرتے ہیں۔

میں کہتا۔ خود سوچو کے جام نے آپ لوگوں کو آج تک کیا دیا ہے، بلکہ وہی پنجابی کے ساتھ مل کر ہمارے پسماندگی میں اضافہ کرتا رہا ہے، جہاں تک بی ایس او کی بات ہے تو وہ ہر اس شخص کے ساتھ کھڑا ہے، جو اپنے قوم و عوام کے جہد آجوئی کی آواز بلند کرتا ہے۔ وہ میرے ان باتوں سے سیخ پا ہوتے، میں ان کے ان بدبختی پر حیران تھا۔

جب ان کو محلہ کے چاپڑے نما ہوٹل میں دن بھر گٹکا کھاتے، تاش کھیلتے دیکھتا، تو سوچتا کے کیسے عجیب لوگ ہیں، میرے لسبیلہ کے کیوں یہ اپنے حق سے نا واقف ہیں۔ کب یہ سمجھیں گے کہ مکران و جھالوان یا اندرونی بلوچستان والے ان کے اپنے ہیں یہ تو جام اور سرکار کی چال ہے، جو ان کی توجہ اصل دشمن سے ہٹا کر اپنوں کی طرف لگارہی ہے۔

انہیں معلوم تک نہیں تھا کہ اپنے کون اور پرائے کون، سالوں سے پسماندہ اس علاقے کے زہنیت کو جام و بھوتانیوں نے ایسے واش کیا تھا کہ سمندر، صنعتی شہر ہونے کے باوجود یہ ذہنی طور پر اپنے غربت کو قبول کر کے اسی میں خوش تھے. انکو اس قدر سکھایا و سمجھایا گیا تھا کہ کلمہ طیبہ ہے ہی پنجابی کا ریاست. اسی دھرتی کا باسی ہونے کے باوجود لاسی قوم سالوں سے نوکریوں کے چکر کاٹتے رہتا ہے، دوسری جانب شپ بریکنگ، و کمپنیاں پنجاب سے گاڑیاں بھر بھر کر لاتے رہتے تھے۔

جب میں نے دیکھا کے میرے باتوں کا میرے لوگوں پر کوئی اثر نہیں ہورہا اور الٹا میرے ہی مخالف بن گئے، ان کے ساتھ ساتھ اب پنجابی سرکار بھی میرا پیچھا نہیں چھوڑ رہا، تو میں بھی باقی بلوچوں کی طرح اپنے سرزمین کے سرمئ پہاڑوں کا رخ کرنے کا فیصلہ کر لیا، جہاں سے میں اپنے مادر وطن بلوچستان کے ساتھ ساتھ اپنے بے بس قوم لاسی و بلوچستان میں بسنے والے غلام قوموں کی جدوجہد کو جاری رکھ سکتا ہوں، اب پختہ فیصلہ کیا کے بندوق ہی وہ واحد زریعہ ہے، دشمن سے اپنا حق لینے کا۔ اج بھی جب میں بلوچستان کے ان سنگلاخ پہاڑوں کے درمیاں اپنے کیمپ میں گھاٹ دیتاہوں، تو خیالوں ہی خیالوں میں اپنے آپ کو بیلہ کے بازار میں پاتا ہوں، اتھل کی ریتلی زمین کی تپش کو اپنے پاوں کے نیچے محسوس کرتا ہوا جب وندر کے ساحل کی گیلی ریت پر پہنچ کر سرد ہواؤں سے استقبال پاتا ہوں، تو عمر بھر کی تھکن ملیامیٹ ہوجاتی ہے۔

حب میں پر سکون نیند میں سونے والے ان قبروں سے صدا محبت کی آواز آتی ہے، جہاں میرے دوست شہید صمد، شہید فراز، شہید نصیر، شہید کرم سمیت بلوچ دھرتی کے وارث اپنے حصے کا کام مکمل کرکے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے، ان شہیدوں کے طرح، میں بھی میرے ہمگام ساتھی اپنے فرض پر گامزن رہ کر اپنے جہد کو آخری سانس تک جاری رکھیں گے.
مگر ایک آس ایک امید ہمیشہ رہے گا
ہمارے بعد ہمارے بندوق کو تھامنے والا بھی کوئی ہو