بی ایچ آر او نے ماہ اگست میں انسانی حقوق حوالے رپورٹ جاری کردی

201

بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن کے ترجمان نے ماہ اگست کو بلوچستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے سنگین ترین قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس مہینے کی کاروائیوں کے دوران مجموعی طور پر 91افراد قتل،138اغواء اور 51افراد بازیاب کیے گئے۔

ترجمان نے ماہانہ رپورٹ میں کہا کہ ہے کہ حسبِ سابق اگست کے مہینے میں بھی فورسز کی کاروائیوں کے دوران سب سے زیادہ 41 افراد قتل کیے گئے، جن میں پنجگور کے علاقے بالگتر کے رہائشی شمس خاتون ولد اللہ بخش بھی شامل ہے، اس کے علاوہ ڈیرہ بگٹی سے مختلف کاروائیوں کے دوران ہلاک ہونے والے 8افراد، کوہلو، نوشکی، کولواہ میں فورسز کی کاروائیوں میں ہلاک ہونے والے افراد بھی اسی فہرست میں شامل ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ فورسز کی طاقت استعمال کی پالیسیاں بلوچستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے صورت حال کو ابتر بنا چکے ہیں۔ انسانی حقوق کارکنوں اور سیاسی تنظیموں کے مطالبات کے باوجود حکومت طاقت استعمال کی پالیسی کو جاری رکھے ہوئے، جو کہ انتہائی منفی اثرات مرتب کررہی ہے۔ ان کاروائیوں میں ہزاروں خاندانوں کے سربراہ قتل کیے جا چکے ہیں جن کے پسماندگان انتہائی کسمپرسی اور بے یار و مددگار زندگی گزار رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کولواہ کے متعدد علاقوں میں22اگست سے جاری آپریشنوں کی وجہ سے درجنوں خاندان نقل مکانی کرچکے ہیں، سینکڑوں لوگ لاپتہ کیے جا چکے ہیں۔

بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن کے ترجمان نے کہا کہ اگست کے مہینے میں تنظیم کو گمشدگی کے واقعات کی 138کیسز موصول ہوئے ہیں، جو کہ فورسز کے ہاتھوں لاپتہ کیے جا چکے ہیں۔ لاپتہ افراد کے بیشتر خاندان ڈر اور خوف کی وجہ سے کوئی قانونی چارہ جوئی کے بجائے خاموشی اختیار کرتے ہیں، جبکہ ان میں سے جو چند ایف آئی آر درج کرنے یا عدالتوں میں کیس دائر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تو انہیں سول انتظامیہ اور عدالتیں کوئی مدد فراہم نہیں کرتے، جس کی وجہ سے لواحقین مایوس ہوکر اپنے کیسوں کی پیروی کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ 2010کے بعد سے 30اگست کو جبری گمشدگی کے حوالے سے منا رہی ہے، لیکن اقوام متحدہ کی رکن ملک پاکستان کی حکومت لوگوں کو جبری طور پر گمشدہ کرنے میں ملوث ہے، جس پر یو این خاموش ہے۔ اقوام متحدہ کی زمہ داری ہے کہ وہ حکومت کی سرپرستی میں ہونے والی جبری گمشدگیاں روکنے اور لاپتہ افراد کو بازیاب کرانے کے لئے اقدامات کرے۔ بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن نے کہا کہ رواں مہینے بولان کے مختلف علاقوں میں ایک درجن سے زائد افراد کو فورسز نے قتل کردیا ہے، جن میں سے بیشتر خواتین و بچے شامل ہیں۔ دور دراز علاقوں میں فورسز نہتے افراد کو قتل کرکے انہیں مقابلے میں مارنے کا دعویٰ کرتی ہے، لیکن اس حوالے سے میڈیا اور حکومتی ادارے تحقیقات نہ کرکے اپنی زمہ داریوں سے چشم پوشی کررہے ہیں۔