خواتین پر ظلم ، دشمن کی واضح شکست – سراج کُنگُر

441

خواتین پر ظلم ، دشمن کی واضح شکست

تحریر : سراج کُنگُر

دی بلوچستان پوسٹ

میرا موضوع بلوچستان کے بارے میں ہے، بلوچستان کے اندر پچھلے ستر سال سےلیکر آج کے اس جدید دور تک پاکستانی فوج نے ہمیشہ بلوچ نوجوانوں کے سامنے اپنی شکست و لاچاری ظاہر کی ہے، جو روز بروز بلوچستان کے اندر مالی و جانی حوالے سے لیکر بچوں اور عورتوں تک ظلم جبر و بربریت، اغوا کرکے بعد میں لاپتہ کرنا، زندانوں میں قید کرنا، ازیت دینا، بے بس غریبوں کا گھر لوٹنا، جلانا یہ سب پاکستانی فورس کی واضح شکست اور لاچاری ہے۔

خواتین اور بچوں کو لاپتہ کرنا اصل.میں بڑی شرم کی بات ہے، مگر پاکستانی ظالم فوج کو شرم و حیا کہاں کہ یہ جان سکے کہ عورتوں کو مارنا، چوٹ پہنچانا بزدل اور نامرد فوجوں کا طرز ءِ عمل ہے، اور خواتین بچوں پر ظلم فوج کی واضح شکست کی نشاندہی کرتی ہے، اور پاکستانی فوج وہ نام نہاد جانور درندہ افواج میں سے ہے جو ظالمانہ، عمل کرنے کی انتہا تک جاتی ہے، بنگلہ دیش کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں عورتوں اور بچوں کے ساتھ پاکستانی جاہل و نااہل آرمی نے دہشتگردی کی حد پار کی تھی، عورتوں اور چھوٹے بچوں کے ساتھ جسمانی تشدد کی تھی زبردستیاں کی تھی، ناجائز سم بند قائم کیے تھے یعنی کے طرح طرح کی تشدد کیے تھے ، ازیت کے دوران ہزاروں بلکہ لاکھوں بنگالی زندگی کی بازی ہار گئے، لیکن بنگالی بہادر قوم نے ہار نہیں مانی بلکہ اور مضبوطی سے جدوجہد کرتے گئے، اُنہیں معلوم تھا کہ اب دشمن بے بسی لاچاری اختیار کر چُکی ہے، اپنی شکست کا نوحہ خود بیان کررہی ہے، بنگالی نڈر اور بہادر قوم نے موقع دے کر دشمن کو واضح شکست سے دوچار کیا اور اپنا قومی حق قومی آزادی حاصل کی اور ایک آزادقوم کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر جاگہ بنالی.

اور یہ مثال آج بلوچ قوم کے سامنے واضح ہے اور اسی طرح بلوچستان کے اندر پاکستانی فوج اپنی بےبسی لاچاری شکست بلوچ قوم کے سامنے پیش کررہی ہے، جو خواتین اور بچوں کو اٹھا کر بعد از لاپتہ کرتی ہے اور پھر تشدد کرکے مری ہوئی حالت میں جنگلوں اور پہاڑوں میں پھینک دیتی ہے، کچھ کو تو یوں غائب کرتی ہے کہ کسی کو بھی خبر نہیں ملتی کہ یہ زندہ ہیں یا کب کے مر چُکے ہیں نہ اُنکی مسخ شدہ لاش ملتی ہے اور نہ ہی زندہ ہونے کی کوئی خبر ملتی ہے، ان سب کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب دشمن پاکستان کی لاچاری و شکست ہے۔

بلوچ بہادر نوجوانوں کی آزادی کی چاہت نے نوجوانوں کو اس قدر مظبوط حوصلہ مند کیا ہے کہ اب دشمن بوکھلاگیا ہے خوف کا شکار ہوچکا ہے، اسی وجہ سے مظلوم عوام کو تشدد کا نشانہ بنا رہا ہے تاکہ نوجوانوں کے ذہنوں میں اپنے خاندان والوں کیلئے ہمدری پیدا ہو، اپنے خاندان کے بارے میں سوچنے لگ جائے کہ اگر میں اس راستے کو چھوڑ کر اس مقصد کو چھوڑ کر سرینڈر کرکے اپنی خاندان کے پاس گیا تو ریاست میرے خاندان والوں کو کچھ نہیں کرے گا اسلیے ریاست یہ چالیں چل رہا ہے تاکہ بلوچ نوجوان ڈر اور کمزوری کا شکار ہوجائیں اور ہتھیار ڈال دیں لیکن نوجوانوں کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ یہ سب دشمن کی لاچاری و شکست ہے کیونکہ دشمن نے نوجوانوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں یعنی کہ نوجوانوں کے ساتھ مقابلہ نہیں کر سکتا سمجھو کہ ہار مان چکاہے اس لیے عوام پر زور ڈال رہا مرنے مارنے کی دھمکیاں دے رہا ہے تاکہ وہ مجبور ہوکر اُسکے سامنے سرینڈر کریں. مگر تمہاری قدمیں جتنی مظبوطی سے آگے بڑھینگے دشمن کے خلاف اُتنی تکلیف پہنچے گی، دشمن کو؛ کیونکہ دشمن کے پاس ایک ہی طریقہ ہے ایک گوریلا ساتھی کو مجبور کرنے کی وہ ہے آپ کے چاہنے والے خاندان اور اگر آپ مظبوط و شعوری حوالے سے پختہ ہو کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے میرے خاندان والوں کو میں اپنی قدموں کو نہیں روکوں گا بلکہ اور آگے بڑھوں گا تب دشمن کی شکست اور تمہاری فتح ہوگی.

پاکستانی فورسز نے مزن کور اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں مختلف جگہوں میں، بلکہ پورے بلوچستان میں، حد سے زیادہ چوکیاں اور بیس کیمپ قائم کی ہیں، جن کا صرف ایک ہی مطلب ہوسکتا ہے وہ یہ کہ بلوچ قوم پاکستان کی ناجائز قبضہ گیری کے خلاف مزاحمت کرنے کے بارے میں فیصلہ کر چکی ہے، جبکہ پاکستان کی جھوٹی سیاست ناکام ہوگئی ہے، اب پاکستان کے پاس ایسا کوئی چارا بھی نہیں بچا ہے، جو بلوچ قوم کو اور زیادہ دیر تک غلام بنا سکے، یہی صرف ایک طریقہ تھا جو پاکستانی قوتوں نے پورے بلوچستان کو اپنے لپیٹ میں لے لیا ہے اور ہزاروں کی تعداد میں بلوچستان کے اندر پاکستانی فوج، جنگی ساز و سامان تعینات کی ہے. لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوتی ہے؛ پاکستان کی ان پالیسیوں اور چالوں کے باوجود بلوچ قوم کے فرزند تحریک آزادی سے دستبردار نہیں ہوئے بلکہ اور دلچسپی سے، من سے، لگن سے، محنت سے آگے بڑھنا شروع کیا ہے۔
اور پاکستانی ریاست کو یہ پیغام دیا ہے کہ اب بلوچ تحریک آزادی رکنے والا نہیں ہے، ریاست چاہے جتنے، بلوچ خواتین اور بچوں کو اغوا کرکے لاپتہ کرنا شروع کردے، اب یہ تحریک نہیں رُکے گی اور یہی پاکستان کی واضح شکست ہے.

ہم یہاں ایک نظر ڈالیں ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ پاکستانی فوج کب کا ہار مان چکا ہے، مگر بلوچستان کے اندر کچھ نام کے بلوچ ہیں جو یہ نہیں چاہتے کہ بلوچ قوم آزاد ہوجائے کیونکہ ان کو پاکستان کی طرف سے بھرپور لالچ و کمک حاصل ہے اور یہ کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ بلوچستان آزاد ہوجائے ہے اور یہ ریاست فوج کی چمچے ہیں ریاست کیلئے کام کرتے ہیں؛ اور اِنہی کی مدت و کمک سے پاکستانی آرمی اب تک بلوچستان کے اندر ٹکا ہوا ہے۔ نام نہاد ڈیتھ اسکواڈ کے نام پر چھوٹے چھوڑے گروہ ہیں، جو پاکستانی فوج کے ساتھ مل کر ہم کار ہیں ان کے ہاتھ بلوچوں کے خون سے دُھلے ہوئے ہیں اور یہ سرے عام ہتھیار سے لیس ہوکر بلوچ جہد کاروں کی ٹھکانوں کو ڈھونڈتے ہیں رند گیری کرتے ہیں کئی جگہوں میں جہد کاروں کو اکیلا دیکھ.کر ان پر حملہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں غریب بے بس لاچاروں کو ازیت دیتے ہیں نوجوانوں کو اغوا کرواتے ہیں جہد کاروں کی نشاندہی کرتے یعنی کے پاکستانی فوج کیلئے، چاہے کوئی بھی کام ہو یہ گروہ کرتے ہیں اور اس خونی کھیل کے میدان میں نقصان صرف وصرف بلوچ قوم کو ہے کیونکہ دونوں طرف بلوچ ہیں ایک طرف جہد کار ہیں تو دوسری طرف ڈیتھ اسکواڈ والے ہیں دونوں طرف بلوچ ہیں اور یہاں فائدہ پاکستان کو ہو رہا ہے اور صرف یہی وجہ ہے کہ پاکستانی فوج اب تک بلوچستان کے اندر ٹکا ہے۔

مگر اب زیادہ دیر تک نہیں ٹِک سکتا کیونکہ جو انسان اپنے وطن سے غداری کرے گا اُسکا ایمان ختم ہوجاتا ہے اور وہ صرف لالچ کیلئے کام کرتا ہے لیکن لالچ پرست کی عمر چھوٹی ہوتی ہے.

ہمارے زانت کاروں کا کہنا ہے؛ کہ جب تک تم اندر سے تیار نہیں ہو شعوری بنیاد سے تیار نہیں ہو جنگ تمہارے لیے مشکل سے زیادہ مشکل ہوگا؛ اور اگر تم اندر سے تیار ہو شعوری حوالے سے تیار ہو تو تمہارے لیے جنگ ایک کھیل جیسا ہوگا؛ کیونکہ تم زانت کے حوالے سے شعوری حوالے سے علم کے حوالے سے تم بلکل تیار ہوں دشمن کی چالوں کو سمجھ سکو گے دشمن کے بارے میں جانکاری ہوگی تم یہ سمجھ سکو گے کہ دشمن کا اگلا قدم کیا ہوگا؛ دشمن کی نئی چالیں کیا ہونگیں، میں اپنے آپ کو کس طرح دشمن کی بچھائی ہوئی چالوں سے بچاسکوں گا، کس طرح دشمن کو جان سکوں کہ دشمن کا اگلا عمل کیا ہوگا دشمن کی سوچ کیا ہے یہ سب آپ کی سوچ و پختگی و علم سے وابستہ ہیں۔

گوریلا جنگ؛ کس طریقے سے سامنے والے دشمن ریاست کو شکست دیتی ہے چونکہ دیکھا جائے؛ ریاست کے پاس بہت ساز و سامان موجود ہیں جو گوریلاوں کے پاس موجود نہیں ہیں؛ ریاست کے پاس مالی و مڈی کے حوالے سے ہوں؛ فنانس کے حوالے سے ہوں جدید ترین ہتھیار کے حوالے سے ہوں۔

فوج کے حوالے سے ہوں؛ طاقت سے یعنی کہ ہزار گنا؛ گوریلا تنظیموں سے طاقتور ہے، مگر اتنا طاقتور ہونے کے باوجود گوریلا سنگتوں کے ہاتھوں سے کیسے شکست کھاتی ہے وجہ کیا ہے؟

ریاست کا شکست کھانے کا وجہ یہ ہے؛ رپاست جب ایک قوم پر قبضہ کرتاہے؛ تو اُس مظلوم قوم پر ظلم و جبر کرتا ہے لوٹ مار کرتا ہے قوم کے نوجوان فرزندوں کو لاپتہ کرتا ہے، یہ سب کچھ اپنی طاقت و زور آوری کی بنیاد پر کرتا ہے؛ ریاست کی سپاہیاں تنخوا کے بنیاد پر کام کرتے ہیں بڑے افسروں کی کہنے پر مظلوم قوم پر جبر و بربریت کرتے ہیں؛ اور ریاست کی ان سب کاموں کی وجہ سے ریاست کے خلاف؛ اُن قوم کے اندر گوریلا تنظیم جنم لیتے ہیں اور اپنی قوم کی حفاظتی و سلامتی کیلئے دشمن کے ساتھ لڑنے کا فیصلہ کرتے ہیں؛ کیونکہ دشمن کے ساتھ دو بدو لڑنا؛ اور فتح حاصل کرنا آسان نہیں ہے کیونکہ پورا قوم ایک ساتھ ایک وقت پر تیار نہیں ہوتا ہے، تیار کرنا پڑتا ہے محنت کرنی پڑتی ہے، قوم کو معلوم کروانا پڑتا ہے کہ تم غلام ہو؛ تمہیں غلامی کے خلاف بغاوت کرنا ہے، تمہیں آزادی کا حق ہے، اپنا حق جاننا ہے؛ مگر تمہیں یہ سب ریاست کھلے عام کرنے نہیں دے گی؛ لیکن ایک گوریلا تنظیم کے ساتھی کرسکتا ہے کیونکہ اُسکا نام گوریلا ہے اور گوریلا کا مطلب ہوتا چوری چھپے اپنے مقصد کو انجام دینا؛ اور گوریلا سنگت اپنی قوم کے دفاع میں کچھ بھی کرسکتا ہے؛ اور ایک عام آدمی ایک گروہ کھلے عام بنا ہتھیار کہ کچھ نہیں کرسکتا؛ کیونکہ ریاست ان کو کچھ کرنے نہیں دے گی.

مثالیں ہمارے سامنے ہیں، بلوچ قوم کے بڑے سیاست دان تھے؛ لالا مُنیر؛ واجہ شیر محمد؛ غلام محد؛ ڈاکٹر منان؛ صباءدشتیاری جیسے بہت سارے تھے جن کا نام بھی میرے ذہن میں نہیں آرہے ہیں، انہوں نے سیاست کا راستہ اختیار کیا تھا؛ اپنی قوم کیلئے آواز اٹھانا شروع کی تھی؛ اور جب ریاست پاکستان کو معلوم ہوا؛ کہ یہ سیاست دان سیاست کررہے ہیں اور اپنی حق کی بات کررہے ہیں بلوچستان کی آزادی کی بات کررہے ہیں تو ریاست نے ان کو شہید کردیا؛ کچھ کو لاپتہ کردیا؛ یہاں ایک چیز ثابت ہوگیا کہ ریاست کسی قوم کو اکیلا سیاست کے ذریعے آزاد ہونے نہیں دیتا؛ جب تک گوریلاوں کا کمک حاصل ناہو. لیکن گوریلا تنظیم اپنے آواز کو ایک پہچان کی طرح دنیا کے اندر واضح کرتے ہیں؛ بندوق کے زریعے کام کرتے ہیں چوری چھپے سے ریاست کو نقصان پہنچاتے ہیں تاکہ نقصان صرف ریاست کو ہو۔

ہماری قوم؛ دشمن کے بارے میں سمجھ سکے؛ دشمن کو نقصان کھاتا ہوا دیکھ کر ہمارا قوم تیار ہو، مظبوط ہو؛ یہ سمجھ سکے کہ ہمارے بہادر نوجوان، دشمن کو اس لیے نقصان پہنچاتے ہیں کہ دشمن، تمہارے اوپر جبر کررہا ہے، ظلم کررہا ہے، تمہیں غلام بنا چکا ہے؛ اور ہمارے نوجوان ہمہیں آگاہ کرنے کیلئے صحیح راستہ دکھانے کیلئے دشمن ریاست کو نقصانات پہنچاتے ہیں۔

اور ان کاموں کو گوریلا تنظیم کے نام پر قبول کرتے ہیں؛ پورے دنیا کے سامنے ان کاموں کو واضح کرتے ہیں؛ انکا مطلب ہے کہ پوری قوم اپنی آزادی کے بارے میں سوچے اور قوم؛ پوری طرح سے تیار ہوجائے؛ اور اپنا آزادی کی حق جان سکے اور حاصل کر سکے۔

گوریلاوں کا اصل مقصد ہے دشمن کو کمزور کرنا اور اپنی قوم کو دشمن کے خلاف تیار کرنا؛ کیونکہ میں نے پہلے کہاتھا کہ ریاست کے پاس ساز و سامان بہت ہے، فوجی حوالے سے ؛ مال و مڈی کے حوالے سے؛ زیادہ طاقتور ہے؛ اور ریاست کو شکست دینے کیلئے پورا قوم کو تیار ہونا چاہئے؛ اور بنا پورے قوم کے گوریلے تنظیم؛اکیلا اُس مقام تک نہیں پہنچ سکتے؛ جہاں پہنچ نہیں ہے؛ جب تک پوری قوم کی مدت و کمک حاصل نہ ہوں؛ اور جب پورے قوم کی مدت و کمک حاصل ہوا؛ گوریلا تنظیموں کو؛ تو دشمن ریاست کو شکست دینا کوئی بڑی بات نہیں ہوگی۔

مگر آج بلوچ قوم کی مدد و کمک سے گوریلا جنگ اُس مقام کے قریب ہیں جہاں ہونا چاہئے؛ اور پاکستانی فوج شکست کا راستہ اختیار کر چکا ہے۔

آج ہمارے لیے یہ بات بہت بڑی ہے کہ ہم نے جنگ کا راستہ اپنایا ہے غلامی کے خلاف جنگ کرنے کا آغاز کیا دشمن پاکستان کی زبردستی؛ قبضہ گیریت کے خلاف مزاحمت کا راستہ اپنالیا ہے اپنی قوم کی خوشحالی و بلوچستان کی آزادی کی جنون نے ہمیں اس مقام پر لایا ہے؛ اور دشمن کو شکست سے واقف کروایا ہے؛ اور ہمارے لیے اس سے بڑھ کر اور خوشی کی بات نہیں ہوسکتا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔