کوئٹہ: لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج جاری

156

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 3911 دن مکمل ہوگئے۔ نیشنل پارٹی کے سینئر رہنما میر عبدالغفار قمبرانی، ظہیر ایڈوکیٹ، بانک ماروش بلوچ سمیت دیگر نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی جبکہ جھاو سے لاپتہ دو نوجوانوں کے لواحقین نے کیمپ آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔

وی بی ایم پی کے رہنما ماما قدیر بلوچ نے اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی مقتدرہ کے تمام حصے اندرونی اور بیرونی سطح پر بلوچستان میں بڑھتی ہوئی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو چھپانے کے لیے لغو بیان بازی سمیت میڈیا اور دیگر ذرائع کو مضحکہ خیز طریقے سے استعمال کرتے آرہے ہیں لیکن بلوچ پرامن جدوجہد میں وسعت و شدت اور لاپتہ بلوچوں کے لواحقین کی اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے مثالی اور تاریخی جدوجہد پاکستانی مقتدرہ کی ان تمام چالوں اور کوششوں پر پانی پھیر چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ تاریخی طویل لانگ مارچ، طویل بھوک ہڑتالی کیمپ نے بلوچستان میں بلوچ نسل کشی، ریاستی جرائم کو پوری دنیا پر واضح کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اس کے علاوہ لاپتہ بلوچوں کے لواحقین کے احتجاج نے اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی برادری کو متوجہ ہونے پر مجبور کیا ہے۔

انہوں نے کہا کے بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیاں تسلیم شدہ بین الاقوامی قوانین کے تحت نسل کشی اور جنگی جرائم کے طور پر دیکھے جارہے ہیں اس نوعیت کے واقعات اور کاروائیوں میں ملوث ریاستوں کو مقدمات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

جھاو سے لاپتہ یاسر اور حفیظ کی والدہ نے کیمپ آکر اپنا احتجاج ریکارڈ کیا جہاں انہوں نے اعلیٰ حکام سے اپیل کی کہ ان کے بیٹوں کو بازیاب کیا جائے اگر ان پر کوئی الزام ہے تو انہیں عدالتوں میں پیش کرکے آئینی حقوق دیئے جائے۔