برطانوی حکومت نے بلوچستان میں اجتماعی قبروں کی موجودگی کی تصدیق کردی

1814

ایک برطانوی سینئر وزیر نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ انکی حکومت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں اجتماعی قبروں کی موجودگی کے رپورٹس سے باخبر ہے۔

نائیجل ایڈمز، برطانوی وزیر برائے دولت مشترکہ اور انٹرنیشنل ڈولپمنٹ ڈیپارٹمنٹ نے کہا ہے کہ وہ بلوچستان کے علاقے خضدار، تربت اور ڈیرہ بگٹی سے ملنے ولی اجتماعی قبروں کے بابت علم رکھتے ہیں۔

گوکہ برطانوی وزیر نے نام لیکر نہیں کہا لیکن یہ وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ برطانوی وزیر کا اشارہ بلوچستان کے علاقے توتک خضدار سے ملنے والی تین اجتماعی قبروں کی جانب تھا، جو 2014 میں منظر عام پر آئے تھے، جہاں سے 169 مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئیں۔ جن کی شناخت بلوچ لاپتہ افراد سے ہوئی تھی۔ بعد کے سالوں میں ڈیرہ بگٹی، تربت اور بلوچستان کے دوسرے علاقوں میں مزید اجتماعی قبریں منظر عام پر آئیں۔

برطانوی وزیر کا کہنا تھا کہ وہ برطانوی حکومت انسانی حقوق کے پامالیوں پر اکثر پاکستان کے اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کے سامنے اپنے تحفظات پیش کرتی رہتی ہے۔ انہوں نے کہا ” ومبلڈن کے لارڈ احمد نے حال ہی میں فروری کے مہینے میں پاکستان کے انسانی حقوق کے وزیر کے سامنے برطانوی حکومت کے تحفظات پیش کیئے تھے تھے۔

انہوں نے حالیہ ہفتے، یہ بیان اس وقت دیا جب برطانوی پارلیمنٹ میں ایک رکن پارلیمنٹ اسٹیفن مارگن نے ان سے اس بابت سوال کیا۔ جناب مارگن پورٹس ماؤتھ، ساؤتھ انگلینڈ سے لیبر پارٹی کے ایم پی ہیں۔

یاد رہے لیبر پارٹی کے مذکورہ ایم پی سے بلوچ نیشنل موومنٹ کا ایک وفد بی این ایم لندن زون کے صدر حکیم واڈیلہ کی قیادت میں حالیہ دنوں دو بار ملاقات کرچکی ہے اور انہیں بلوچستان کی صورتحال سے آگاہ کرچکی ہے۔

اسٹیفن مارگن سے بی این ایم کے ایک وفد نے حالیہ دنوں تفصیلی ملاقات کی تھی

ناجیل ایڈمز نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ برطانوی حکومت اس بات سے آگاہ ہے بلوچستان میں کس طرح نقل و حرکت پر پابندیاں ہیں۔ برطانوی حکومت تمام اقلیتوں، فرقوں اور قومیتوں کے ساتھ ہونے والے زیادتیوں کی سخت مذمت کرتا ہے۔

اسٹیفن مارگن نے مذکورہ برطانوی وزیر سے دریافت کی برطانوی حکومت اس بات کو یقین دہانی کیلئے کیا کررہا ہے کہ برطانیہ کے پاکستان کو برآمد کردہ ہتھیار بلوچوں کے خلاف استعمال نا ہوں؟

اس کے جواب میں ناجیل ایڈمز نے کہا کہ برطانوی حکومت ایسے ممالک کو لائسنس نہیں دیتی جہاں یہ خطرہ ہو کہ وہ یہ ہتھیار اندرونی طور پر اپنے لوگوں پر استعمال کریں گے۔ حکومت دفاعی برآمدات پر سخت نظر رکھتا ہے، ضوابط کی خلاف ورزی کی صورت میں لائسنس منسوخ بھی کی جاتی ہے۔

اسٹیفن مارگن نے مزید دریافت کیا کہ برطانوی حکومت ان الزامات کے بابت کیا تحقیقات کرچکا ہے کہ برطانوی ہتھیار بلوچستان میں انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں میں استعمال ہورہے ہیں؟

نائیجل ایڈمز نے جواب دیا کہ ہم ہر ایک برآمدی لائسنس کا جدا جدا سخت تجزیہ کرتے ہیں، ہمارے ضوابط میں انسانی حقوق بہت اہم ہیں۔ اگر ایسے شواہد ملتے ہیں کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی ہے تو ہم لائسنس منسوخ کردیتے ہیں۔

اسٹیفن مارگن نے اس مسئلے کو بھی اٹھایا کہ پاکستان نے بلوچستان میں تمام سرگرمیوں، امدادی تنظیموں اور غیر سرکاری تنظیموں پر پابندیاں لگائیں ہوئی ہے۔

جس کے جواب میں نائیجل ایڈمز نے کہا کہ ہم تواتر کے ساتھ ایجن جی اوز اور تنظیموں پر نظر رکھے ہوئے ہیں کہ وہ آزادی کے ساتھ اپنا کام کرسکیں۔ ہم پاکستان کے سامنے اپنے تحفظات پیش کرچکے ہیں کہ وہ عالمی اداروں کو ایک شفاف انداز میں آزادی کے ساتھ کام کرنے دے۔

بلوچستان، جہاں گذشتہ دو دہائیوں سے آزادی کی ایک تحریک چل رہی ہے، انسانی حقوق کے بدترین خلاف ورزیوں کا شکار نظر آتی ہے۔ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے بھی اپنے 2019 کے سالانہ رپورٹ میں بلوچستان میں ہونے والے انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔