ادریس خٹک سمیت تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے – ایچ آر سی پی

177

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) کا کہنا ہے کہ پاکستان میں وسیع پیمانے پر ہونے والی جبری گمشدگیوں پر صرف اس صورت میں قابو پایا جاسکتا ہے کہ ملک میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کو فوری طور پر جرم قرار دیا جائے۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے اور سیاسی کارکن ادریس خٹک کو 30نومبر 2019 کو نامعلوم افراد نے اغوا کیا ہے جو ابھی تک لاپتہ ہے۔

ان خیالات کا اظہار پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کے وائس چیئرپرسن حبیب طاہر خان ایڈوکیٹ نے دیگر کے ہمراہ کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔

ایچ آر سی پی رہنماوں کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے ادریس خٹک کے رہائی کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے گئے ہیں۔ کمیشن حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ ادریس خٹک سمیت تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کرکے ان کے خاندانوں کو اس قریب سے نجات دلائے۔ بین الاقوامی  قانون کے تحت اگر ریاستی اہلکاروں کی طرف سے ریاست کی اجازت، حمایت یا خاموش رضا مندی سے کارروائی کرنے والے افراد کی طرف سے کسی کو گرفتار اغوا یا حراست میں لیا جاتا ہے اور بعد ازاں حراست سے انکار کیا جاتا ہے یا ’’گمشدہ‘‘ فرد کی حالت یا مقام کو چھپایا جاتا ہے جس کے سبب وہ فرد قانون کے تحفظ کے دائرہ کار سے باہر چلا جاتا ہے تو یہ کارروائی جبری گمشدگی کے زمرے میں آتی ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے جبری گمشدگی کو انسانی وقار کے خلاف جرم قرار دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں جبری گمشدگی حالیہ سالوں میں ایک ملک گیر مسئلہ بن چکا ہے۔ اگرچہ ایسے واقعات زیادہ تر بلوچستان، وفاق اور صوبوں کے زیر انتظام قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا میں سامنے آئے ہیں۔ لیکن حالیہ دنوں میں لاپتہ افراد جوکہ کئی سالوں سے غائب تھے۔ اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہں جس سے لاپتہ افراد کو خاندانوں میں امید کی ایک لہر پیدا ہوا ہے جو ایک خوش آئند بات ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں تسلیم کیا ہے کہ ضابطہ تعزیرات پاکستان (پی پی سی) میں جبری گمشدگیوں کو ایک باقاعدہ جرم قرار دیا جائے گا۔ تاہم جبری گمشدگیوں کو ایک واضح اور علیحدہ جرم قرار دینے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے۔ جبری گمشدگیوں کے واقعات میں پولیس کو موصول ہونے والی درخواستیں اب بھی پی پی سی کی ان قانونی دفعات کے تحت درج کی جارہی ہیں جن کا تعلق اغوا یا غیر قانونی حراست سے ہے۔ دیگر اور ایسے سفارشات ہیں جنہی پاکستان نے تسلیم تو کیا لیکن ان پر عمل درآمد نہیں کیا۔

ایچ آر سی پی رہنماوں کا کہنا تھا کہ ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ مزید تاخیر کیے بغیر ڈبلیو جی ای آئی ڈی کی تمام سفارشات پر عمل درآمد کرے اور یو پی آر کے سلسلے میں کیے گئے وعدوں بالخصوص جبری گمشدگیوں سے متعلق وعدوں کو پورا کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایچ آر سی پی وزیراعظم سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ پاکستان کی جانب سے تسلیم کی گئیں۔ ڈبلیو جی ای آئی ڈی کی تمام سفارشات اور عالمی سلسلہ وار جائزے کے دوران تسلیم کی گئیں متعلقہ سفارشات پر عمل درآمد کے لیے تمام ضروری اقدامات کریں۔ ہم خاص طور پر ان پر زور دیتے ہیں کہ وہ فوجداری قانون کے تحت جبری گمشدگیوں کو ایک واضح اور الگ جرم قرار دلانے سے متعلق فوری اور موثر اقدامات کریں۔ تمام افراد کے جبری گمشدگیوں سے تحفظ کے عالمی معاہدے کی توثیق کریں۔ لاپتہ افراد کے خاندانوں کے لیے جو کئی سالوں سے اذیت میں مبتلا ہیں معاوضے کی ادائیگی کا بندوبست کریں۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ حکومت ایسے قوانین بنانے سے گریز کرے جن سے خفیہ، غیر تسلیم شدہ اور رابطے سے محروم حراست میں قانون جواز ملے۔

ایچ آر سی پی اس بات پر زور دیا ہے کہ جبری گمشدگیاں قانون کی حکمرانی کے عالمی اصولوں کی خلاف ورزی ہیں جن کی ایک مہذب معاشرے میں کوئی جگہ نہیں، یہ ملک کی بدنامی کا باعث بنی ہیں اور ان کا فوری خاتمہ کیا جانا چاہیے۔ اس لیے حکومت ادریس خٹک اور تمام لاپتہ افراد فوری طور پر بازیاب کرائے۔