کھنڈرات میں خزانہ – وو منگرین | ڈاکٹر دین محمد بزدار

694

کھنڈرات میں خزانہ – A Treasure In Ruins

تحریر: وو منگرین | ترجمہ: ڈاکٹر دین محمد بزدار

دی بلوچستان پوسٹ

قدیم مہر گڑھ چوروں اور تشدد کی بنا ضائع ہو گیا:(Ancient Mehrgarh Lost to Thieves And Voilence )
مہر گڑھ آثار قدیمہ کی ایک بستی ہے۔ جو پاکستان کے جنوب مغربی حصہ بلوچستان میں واقع ہے۔ بلوچی زبان میں مہر کے معنی محبت اور گڑھ کے معنی جنت کے ہیں۔

مہر گڑھ جنوبی ایشیا میں پتھر کے زمانے کی سب سے اہم بستیوں میں سے ایک ہے۔ وہاں پر زراعت کے سب سے قدیم کچھ شواہد دریافت ہوئے ہیں۔ اس لیئے مہر گڑھ کو کبھی کبھار جنوبی ایشیا کا سب سے پہلا زرعی بستی بھی کہا گیا۔ اس طرح مہر گڑھ وادی سندھ کی تہذیب جو تہذیبوں کے جھولوں (Cradles) میں سے ایک ہے کا پیش رو ہے۔ ماہر آثار قدیمہ نے مہر گڑھ کے لو گوں کے پیشہ کو سات ترتیب وار زمانوں (Seven Chronological Periods) میں تقسیم کیا۔ جو تصویر کشی کرتے ہیں کہ ہزاروں سال سے اس بستی کی کیسے ارتقا ہوئی۔ مہر گڑھ دریائے سندھ کے مغرب میں درہ بولان سے کچھ فاصلے پر کچھی کے میدان میں واقع ہے۔ جو تاجروں حملہ آوروں اور خانہ بدوش قبائل کے راستے میں پڑتا ہے۔ کچھی کا میدان زرخیز اور پانی کی موجودگی کی وجہ سے انسانی آبادکاری کے لیئے موزوں ہے۔ جبکہ درہ بولان تزویراتی، جغرافیائی لحاظ سے اہم ہے جو اس بستی کو مغرب سے ملاتا ہے۔ درہ بولان افغا نستان اور اس سے آگے سطح مرتضیٰ ایران اور مشرق میں زرخیز قوس، وادی سندھ تک رسائی کا دروازہ ہے۔ دوسرے لفظوں میں اسی پہاڑی درے نے مشرق کی جانب وادی سندھ اور مغرب میں دوسری ابتدائی تہذیبوں کے مابین آمدرفت کو ممکن بنایا۔ تاجر حملہ آور اور خانہ بدوش قبائل ہزاروں سال سے درہ بولان سے گزر رہے ہیں۔ درہ بولان نے اپنا تزویراتی اہمیت جدید دور میں بھی برقرار رکھا، برطانوی نوآباد کاروں نے بھی افغانستان جانے کے لیئے اپنی مہموں میں اسی درے کو استعمال کیا۔ مہر گڑھ بلوچستان کے جدید شہروں کوئٹہ، قلات اور سبی کے درمیان واقع ہے، جبکہ مو ہنجو ڈارو اور ہڑپہ وادی سندھ کے دو بڑے شہری مراکز ترتیب وار ڑمہر گڑھ کے جنوب مشرق اور شمال مشرق میں واقع ہیں۔

مہر گڑھ کی دریافت اور کھدائی:
مو ہنجو ڈارو اور ہڑپہ کے برخلاف مہر گڑھ کی دریافت کسی حد تک بعد میں ہوئی۔ مو ہنجو ڈارو کی موجودگی کا علم ماہرین آثار قدیمہ کو 1911 سے تھی لیکن اس کی کھدائی 1920 سے شروع ہوئی۔ ہڑپہ کی دریافت 1826 سے ہوگئی تھی، لیکن اس پر بھی کھدائی 1920 میں شروع ہوئی۔ دوسری جانب مہر گڑھ کی دریافت 1974 میں ہوئی، یہ دریافت فرانسیسی ماہر آثار قدیمہ جین فرانکوئس جیرگ نے کی۔ جیرگ جنوبی ایشیا کے آثار قدیمہ کا ماہر تھا۔ مہر گڑھ کے علاوہ دوسرے بستیوں جیسے نوشہرو، جو مہر گڑھ سے 6 کلومیٹر (3.73) میل کے فا صلے پر ہے، پیرک، سبی، داودا، لعل شاہ، دمبولی اور شا گہیر میں کھدائی بھی اس کے ذمہ داری تھی۔ مہر گڑھ کی بستی 495 ایکڑ (دوسو ہیکٹر،دو مربع کلو میٹر) پر مشتمل ہے۔ جیرگ اور اسکی ٹیم وہاں 1974 سے 1986 تک مسلسل کام کرتی رہی، پھر مہر گڑھ کی کھدائی دس سال کے لیئے بند کی گئی۔1997 میں اس پر کام دوبارہ شروع کیا گیا،ما ہرین نے چار سال مزید کام کیا۔ یہ مہم 2000 میں اختتام کو پہنچا۔ یہ کام فرانسیسی آثار قدیمہ کے مشن اور پا کستانی آثار قدیمہ نے مشترکہ طور پر سر انجام دی۔ جیرگ اور اسکی ٹیم نے مہر گڑھ میں کام کے دوران وہاں کی قدیم لوگوں کی بودو باش کے بارے کافی معلومات حا صل کیں۔

مہر گڑھ کی لمبی سکونت کی تاریخ :
مہر گڑھ ایک مستند کہانی کی بستی ہے (Classic tell site) ۔یہ بستی ہاتھ سے بنی ٹیلہ ہے۔ جو وقت کے ساتھ ساتھ وجود میں آیا۔ جب اس بستی کے باسیوں نے نئی تعمیرات پرانے کھنڈرات پر کرنا شروع کیئے تو یہ ٹیلا بلند ہوتا گیا اور کئی نسلوں بعد ایک کہانی وجود میں آئی۔ مہر گڑھ میں بنائی گئی کئی ایسے ٹیلوں کی کھدائی کی گئی جن سے آثار قدیمہ کا ایک تسلسل (Sequence) وجود میں آیا۔ اس تسلسل کو سات زمانوں میں تقسیم کیا گیا جنہیں مہر گڑھ I تا VII کا نام دیا گیا۔ مہر گڑھ کی پہلی معلوم آبادی اس کے شمال مشرقی کونے میں دریافت ہوئی جسے MR3 کا نام دیا گیا۔ آثار قدیمہ کے تسلسل میں اس وقت کو مہر گڑھ زمانہ Iکہا گیا اور یہ وقت 7000-5500 سال قبل مسیح کا تھا۔ وہ وقت جو پتھر کے زمانے(Neolithic ) سے مطابقت رکھتا ہے۔ اس وقت مہر گڑھ ایک چھوٹی سی بستی تھی لوگ زراعت اورمویشی پالتے تھی۔ اس وقت تہذیب اسرامک (Aceramic) تھی یعنی لوگ اسوقت مٹی کے برتن نہیں بنا رہے تھے۔ جو پتھر کے زمانے اور بعد کے زمانے کے درمیان کی پہچان ہے۔ اس کے بر خلاف مہر گڑھ کے باسی ٹوکری استعمال کرتے تھے اور ان پر بچومن(Bistumen) لگاتے تاکہ پانی سے محفوظ رہیں۔ آثار قدیمہ کے شواہد یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس وقت کے لوگ تانبا بھی استعمال کرتے تھے جو وہ مقامی طور پر حاصل کرتے۔ اس کے علاوہ پتھر اور ہڈی کے اوزار بھی استعمال میں لاتے۔ بیرونی اشیا کی موجودگی جیسے سیپی (Sealshells )جو دور ساحل سمندر سے اور لاجورد افغانستان سے لاتے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ مہر گڑھ کے لوگ بیرونی دنیا سے پہلے سے روابط میں تھے۔ مہر گڑھ I کے وقت اس کے لوگ گارے سے بنے گھروں میں رہتے جس کے اندر چار حصے ہوتے تھے۔ یہ گھر سیدھے کھڑے اور مستطیل شکل کے تھے ۔ان کے گارے کی اینٹیں لمبی سگار نما تھیں۔ ان گھروں کی شکل (Form )بالکل ویسی تھی جیسے میسو پوٹامیا (Mesopotamia) میں سات ہزار سال قبل مسیح دریافت ہوئے تھے۔ اس لیئے ان دو تہذیبوں میں روابت کی بات کی جاتی ہے۔ ان روابط کے حق میں دوسرے شواہد میں زراعت، دستکاری اور تجہیزوتکفین کے رسومات میں مماثلت بھی تھا۔

قدیم کسان اور ماہر دندان:
مہر گڑھ جنوبی ایشیا میں زراعت کے آثار کی سب سے قدیم بستی ہے۔ مہر گڑھ فیز Iمیں جو لوگ بستے تھے انہیں پلانٹ فوڈ (Plant food) جنگلی جو، مقامی مکئی (einkorn) گندم (Emmer wheat )اور جنگلی انڈین جو جولی (jujuly) اور کھجور (phoenix dectylifera) کی خوراک تک رسائی حا صل تھی۔ اس کے علاوہ گوشت بھی کھائی جاتی تھی۔ گلہ کے پالتو جانور جیسے بھیڑ بکری، مویشی اور جنگلی جانور جیسے ہرن، دریائی بھینس (water buffalo) اور ہاتھی کے باقیات ان کھنڈرات کے تہوں سے ملے۔ اس قسم کے جانوروں کے شکار سے ظاہر ہے کہ اس زمانے میں بلوچستان زیادہ تر وسیع میدانوں (savannah) پر مشتمل تھا۔ ماہر آثار قدیمہ نے مہر گڑھ سے دو اور دلچسپ مشاہدے، جس میں ایک قدیم دنیا کی سب سے پہلی معلوم کپاس کا نمونہ اور دوسرا زندہ انسانوں کے دانت کی ابتدائی ڈرلنگ کے ثبوت دیئے۔ پہلی شواہد کی اشاعت آرکیالوجیکل سائس کی میگزین میں 2002 میں ہوئی۔ دوسری کی اشاعت نیچر میگزین میں 2006 میں ہوئی۔ کپاس کے دھاگوں کی دریافت مہرگڑھ سے دریافت ایک ڈھانچہ (Burial) سے ملنے والے تانبے کے دانے (bead) کی صفائی (Metallurgical study) کے دوران سا منے آئی، منریلائزیشن کے نتیجہ میں کچھ کپاس کے دھاگے محفوظ کیئے گئے۔ سکین مائیکرو سکوپ اور روشنی منعکس کرنے والی مائیکرو سکوپ کی مدد سے تحقیق کرنے والے اس نتیجہ پر پہنچے کہ یہ دھاگے کپاس کے ہیں۔ جہاں تک دانتوں پر ابتدائی کام کی بات ہے ماہرین نے گیارہ مستقل ڈرل شدہ کراون (crown) نو انسانی ڈھانچوں میں شناخت کیں۔ دانتوں کا مشاہدہ لائیٹ ما ئیکرو سکوپ اور مائیکرو ٹومو گرافی سے کیا گیا۔ ان مشاہدوں سے مخروطی بیلن نما اور مستطیل سے ملتے جلتے گڑھے اور کچھ سائیڈ پر مشترکہ مرکز والی ابھاریں پائی گئیں۔ ان تمام نشانیوں سے ظاہر ہے کہ دانتوں کو ڈرل کیا گیا۔ تمام دانتوں کے گڑھوں کے کنارے ہموار تھے اس سے ماہرین نے اندازہ لگایا کہ کام زندہ لوگوں پر کیا گیا اور بعد میں انہیں دانتوں سے خوراک چباتے رہے اس لیئے دانتوں کے کنارے ہموار ہوگئے تھے۔ ان پتھر کے ڈرل کے سرپر چکماک لگی اوزار سے دانتوں میں اس طرح گڑھے بنانے میں ماہرین کے مطابق ایک منٹ سے بھی کم وقت لگا ہوگا۔تحقیق کاروں نے یہ بھی خیال ظاہر کیا ہے کہ ڈرل کا ہنر پہلے کاریگروں نے دانوں میں سوراخ کرنے کے لیئے دریافت کیا اور پھر اسے انسانی دانتوں میں سوراخ کے لیئے استعمال کیا گیا۔

مہر گڑھ میں دستکاری اور برتن بنانے کام :
مہر گڑھ پیشہ کے دوسرے دور کو مہر گڑھ II کا نام دیا گیا ہے، جو 5500 سے4800 ق م تک کے وقت کا ہے۔ اس وقت تک مہر گڑھ کے لوگ مٹی کے برتن بنانے کا فن جان چکے تھے۔ لگتا ہے توجہ MR3 سے نئی جگہ MR4 پر ہو گیا تھا۔اس وقت تک زراعت نے ترقی کرلی تھی اور ماہرین کے مطابق مقامی طور جو (Barley) زراعت کے 90% پر مشتمل تھی، اگرچہ نزدیک مشرق سے مہر گڑھ کے باسیوں کو گندم بھی میسر تھی۔ ماہرین نے سورج پر خشک اینٹوں کی کئی عمارتیں بھی کھود نکالیں۔ یہ بڑی مستطیل نما عمارتیں تھیں جنہیں پھر مناسب انداز سے چو کور، مستطیل شکل میں تقسیم کیا گیا تھا۔ ماہرین کا خیال ہے یہ گھر نہیں تھے جیسے تہہ (Layer) میں مہر گڑھ فرسٹ میں دریافت ہوئے تھے کیونکہ ان کے دروازے نہیں تھے۔اس کے علاوہ گھروں کے آثار ناپید تھے۔ ان کے مطابق یہ یا تو غلے کے گودام تھے یا دوسرے اشیا کے گودام ہوں جو لوگوں کے مشترکہ ہوں۔ دوسرے آثار سے لگتا تھا کہ میر گڑھ میں اسوقت بہت سی چیزیں بن رہی تھیں۔ یہاں معیاری کمرے جن کے گرد کھلی جگہیں تھیں جہاں دستکاری کے کام ہوتے ہونگے۔ اس قسم کی زندگی مہر گڑھ میں پتھر کے زمانے کی مٹیریل کلچر(Material Culture) میں جو گزر گئی تھی میں بھی عیاں تھی۔ ان دستکاریوں کی بنیادی چیز دانے (beads) تھے جو اس علاقہ کی پہچان تھی۔ یہاں دانے بنانے کی روایت وادی سندھ کی تہذیب تک قائم رہا۔ مہر گڑھ سیکنڈ کے وقت دستکار کئی قسم کے دانے بناتے تھے۔ جیسے نرم پتھر، چونے اور ابرق کے دانے، انہیں شاید پتھر یا تانبا سے ڈرل کیا جاتا ہو۔ سخت پتھر جیسے عقیق سنگ یشت وغیرہ کے لیئے خاص قسم کے پتھر کے ڈرل استعمال ہوتے ہونگے۔ مہر گڑھ میں سمندری سیپی کے زیورات بھی بنائے جاتے تھے۔ ان دانوں اور شل کی زیورات سے ظاہر ہے کہ مہر گڑھ IIکے وقت کافی تعداد میں غیر مقامی خام مال درآمد کیا جا تا تھا۔ یہی حالت اگلے مرحلے مہر گڑھ IIIتک قائم رہی، جو 4800 سے 3500 ق م تک رہی ،جسے ابتدائی تانبے کا زمانہ (Early Chalcolithic) کہتے ہیں۔ اب اس بستی کے لوگوں کی توجہ دوسری جگہ جسے MR-1 کا نام دیا گیا مرکوز ہوئی۔ یہاں بھی سابقہ دور کی طرح گودام اور گھر ماہرین نے دریافت کئے۔ لیکن یہ پتھر کے زمانے والے آثار سے کافی زیادہ واضح تھے۔ مثلاً مکانوں کی بنیاد گارے اور بجری کی تھی اور اینٹیں سانچوں میں بنائی گئی تھیں۔ مہر گڑھ IV-VII کا زمانہ 3500-2500 ق م کا ہے، اور یہ لیولز (Lavels) تانبے کے زمانے کے ہیں۔ اب مہر گڑھ کے لوگ یہاں سے MR-1 میں چلے گئے۔ اس زمانے مٹی کے برتن اور دستکاری اس بستی میں پہلے کی طرح بنتی رہیں لیکن انکی خوبصورتی میں اضافہ ہوتا گیا۔

مہر گڑھ کو ترک کرنا:
مہر گڑھ دور IVکے اختتام پرمہر گڑھ کے اکثر باسیوں نے اسے چھوڑ دیا تقریباً اسی وقت وادی سندھ کی تہذیب ترقی کی درمیانی منزل پر تھی۔ یہ خیال ظاہر کیا گیا کہ موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے بلوچستان کا یہ علاقہ زیادہ خشک ہوگیا تھا اور اس پر زراعت سود مند نہ رہی اس کے نتیجہ میں مہر گڑھ کے لوگوں نے وادی سندھ ہجرت کی جہاں موسمی حالات مناسب تھے۔مہر گڑھ کی اہمیت کے باوجود مہر گڑھ آج نا گفتہ بہہ حالت میں ہے۔ اگرچہ مہر گڑھ اب یونیسکو کی میراث کی آزمائشی لسٹ (UNESCO Tentave Heritage List.) میں ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مرکزی حکومت نے مہر گڑھ کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ یہ الزام مرکزی حکومت پر ڈالا گیا کہ وہ مہر گڑھ کو یونیسکو کے سامنے موئثر انداز میں پیش کرنے میں ناکام رہا۔ مہر گڑھ کو اور بھی شدید مسائل کا سامنا ہے۔ یہ جگہ 2002 میں رند رئیسانی قبائلی دشمنی کا ”بد قسمت ہدف“ (Unfortunate victim (بنا۔ دونوں قبائل نے راکٹ مار کر اس جگہ کو بری طرح تباہ کیا۔ اگرچہ اس جگہ پر رئیسانی قبیلے کا کنٹرول تھا لیکن رند بھی اس پر اپنا دعویٰ جتا رہے تھے۔ چیزیں جیسے ہیں انہیں ویسے رہنے دینے پر قناعت کرنے کی بجائے رندوں نے سادہ لوحی سے فیصلہ کرکے اس جگہ پر بلڈوزر چلا دیا (The Rind decided simply to buldose the site.) ۔مقامی مسائل کے علاوہ مہر گڑھ کو بین الاقوامی مسائل بھی درپیش ہیں۔ اکتوبر 2014 کو اٹلی کے حکام نے روم سے دو نوادرات ضبط کیں جو مہر گڑھ سے چرائے گئے تھے۔ 2015 کے ایک مضمون میں بتایا گیا کہ پاکستان کی بیورو کریسی کی عدم دلچسپی اور سرخ فیتے کی بنا ان چیزوں کی واپسی ممکن نہ ہوسکی۔ سمگل شدہ نوادرات کا پکڑا جانا قابل تعریف ہے لیکن یہ مسئلہ کی جڑ کی نشان دہی نہیں کرتا۔ پاکستان میں غیر قانونی نوادرات کی تجارت عام ہے۔ مہر گڑھ اور ایسی دوسری جگہوں کے مستقبل کو یقینی بنانے کی خاطر نوادرات کی سمگلنگ کے مسئلے پر حکومت پاکستان کو خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔