کمبرو کساں سالیں رہشون – میروان بلوچ

622

کمبرو کساں سالیں رہشون

تحریر: میروان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

البرٹ میمی اپنے کتاب ” کالونائزر اینڈ دی کالونائزڈ” میں لکھتے ہیں کہ نوآبادیاتی نظام انسانی تاریخ پہ ایک سیاہ دھبہ ہے جو دیسی باشندوں کی تخلیق کاروں اور بہترین دماغوں کو ختم کرتا ہے اس سے تاریخیں مسخ ہوتی ہیں، قومیں مٹ جاتی ہیں ثقافتیں ، زبانیں ختم ہوجاتی ہیں اور انسان کو انسانی صفات سے نکال کر جانور بنا دیتا ہے تشدد ایک نہ رکنے والا عمل بن جاتی ہے دیسی باشندے مجبوراً تشدد کی طرف راغب ہوتے ہیں کیونکہ نوآبادکار کے پاس دیسی باشندوں کو زیر کرنے کا واحد طریقہ تشدد بچ جاتا ہے ،انسانی تاریخ میں نوآبادیاتی نظام ایک آفت سے کم نہیں، اور اس آفت سے بلوچ قوم پچھلے دو صدیوں سے گزرتے آرہے ہیں ایک طرف جہاں نوآبادکار نے بلوچ وطن ، زبان ، ثقافت و تاریخ کو مسخ کرنے، افرادی قوت کو کم کرنے، قبائلی نظام کو بڑھاوا دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی وہیں دوسری طرف بلوچ خوش قسمت قوم ہے جسے ایسے عظیم رہنما عطا ہوئے جنہوں نے بلوچ قوم کے سامنے نوآبادکار کی تمام تر سازشوں کا پردہ فاش کرکے انہیں مزاحمت کا راستہ دکھایا۔

شروع دن سے نواب محراب خان نے قربانی کی ایسی مثال آنے والے نسلوں کیلئے چھوڑ گئے جس میں سربلندی، قومی افتخار اور نوآبادکار کے خلاف مسلسل مزاحمت کا درس دیتا ہے جس پر چل کر آج بلوچ قوم نے کافی حد تک اپنی قومی قوت کو یکجا کرکے اپنی زمین، زبان، ثقافت اور تاریخ کو زندہ رکھنے میں کامیاب ہوا ہے لیکن اس جہد مسلسل میں بلوچ قوم نے بیش بہا قربانیاں دی ہیں جو دنیا میں ایک الگ مقام رکھتا ہے۔

لیکن اکیسویں صدی کی ان دو دہائیوں میں جہاں بلوچ قومی مزاحمت واضح مؤقف کے ساتھ کامیابی سے منزل کی طرف گامزن ہے وہیں ان دو دہائیوں میں بلوچ قوم نے دکھ تکالیف اور قربانیوں کی ایسی مثال رقم کی ہے جو پچھلے تمام ادوار سے زیادہ ہیں اس میں ایسے عظیم قومی رہنماوں سے بلوچ قوم محروم ہوا ہے جن کی خلاء کو شاید ہم پر نہ کرسکیں، ہزاروں کی تعداد میں لاپتہ افراد، ہزاروں مسخ شدہ لاشیں، ہزاروں کی تعداد میں نقل مکانی اور ہزاروں شہادتیں وہ بھی سیاسی کارکنوں سے لیکر قومی مزاحمت کاروں تک اور سیاسی لیڈران جن میں ایک سے بڑھ ایک کردار ایسا ہے کہ جن کیلئے بلوچ قوم خون کے آنسو رو رہا ہے ان ہی کرداروں میں سے ایک شہید کمبر چاکر ہے، بلوچ وطن کے اس کساں سال رہنماء کیلئے کافی مدت سے لکھنے کو دل چاہ رہا تھا لیکن ہر بار اپنے لکھے ہوئے الفاظ کو حذف کردیتا ایسے لگتا جیسے میرے الفاظ شہید کے ساتھ انصاف نہیں کر پا رہے ہوں اور آج بھی انتہائی عاجزی کے ساتھ چند سطور قلمبند کررہاہوں۔

شہید کمبر چاکر کیلئے میرے پاس الفاظ نہیں اسی لیے میں یہاں بلوچ گوریلا رہنما استاد واحد کمبر کے الفاظ بیان کرنا چاہوں گا جو انہوں نے شہید کیلئے کہے تھے کہ شہید کمبر چاکر شہید غلام محمد کے بعد واحد سیاسی رہنماء تھے جو شہید غلام محمد کی جگہ لے سکتے تھے۔ قومی جدوجہد میں شہید غلام محمد کے ساتھ جس کو مسابقت ہو بھلا وہ کوئی معمولی کردار تھوڑا ہوسکتا ہے، شہید کمبر چاکر بلوچ وطن کا ایک مخلص فرزند جس نے طالبعلمی دور سے بلوچ جدوجہد میں اپنا حصہ ڈالنا شروع کیا۔

بی ایس و آزاد کے اولین دوستوں میں ان کا شمار ہوتا ہے ایک ایسے وقت میں جہاں لوگ بی ایس او آزاد کے ساتھیوں کو جذباتی طالبعلم کے نام سے پکارتے تھے لیکن شہید کمبر چاکر اور ان کے رفقاء نے قومی آزادی کا پیغام بلوچ وطن کے چپے چپے تک پہنچایا اور انہی جذباتی طالبعلموں نے قوم کی ایسی رہنمائی کی جس کی مثال ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا۔

شہید کمبر چاکر ہمیشہ ہر جگہ صف اول میں رہتے، احتجاج، جلسہ جلوس، سیاسی مجالس، تحریر و تقاریر شہید کمبر چاکر  قومی فرض ادا کرنے میں کبھی پیچھے نہیں ہٹے، انکے اپنے الفاظ ہی اس کی سیاسی بصیرت اور قوم کے ساتھ سچی مخلصی کو عیاں کرتے ہیں جہاں شہید کہتا ہے کہ “‏اس شخص کو برداشت کیا جاسکتا ہے جو زخموں سے چھلنی ہو،
لیکن اس شخص کو برداشت نہیں کیا جاسکتا، جس نے ہمت ہاری ہو اور ساتھ چھوڑ دی ہو”۔ اس زمانے میں جہاں نظریاتی مفرور اور جدوجہد سے تھکے ہارے ہوئے لوگ دائیں بائیں نکلنے میں لگے تھے وہیں کمبر چاکر جیسے سیاسی کارکن تربت میں ببانگ دہل ریاست کو للکار رہا ہوتا ہے ” ہم آج دشمن کو واضح پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اگر وہ مار سکتا ہے تو ہم بھی مار سکتے ہیں تم ایک مارو گے ہم سو ماریں گے اگر مارنے کا اختیار تمہیں ہے تو وطن کی،آزادی کیلئے ہم نے بھی کفن باندھ رکھے ہیں”۔ شہید کمبر چاکر کو دشمن کی عقوبتیں بھی مرعوب نہیں کر سکیں، دو دفعہ شہید کمبر چاکر کو لاپتہ کرکے زندانوں میں ڈال کر دشمن یہ سمجھ بیٹھا تھا کہ شاید شہید کمبر چاکر پیچھے ہٹ جائیں گے اور قومی آزادی کی جدوجہد سے دستبردار ہوجائیں گے لیکن شہید تو دوسروں کو زندان میں ثابت قدم رہنے کی تلقین کیا کرتے تھے کہ “ہمیں زندان میں بھی دشمن کو یہ باور کرانا ہوگا کہ ہم مر تو سکتے ہیں لیکن اپنے قومی آزادی کی جدوجہد سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹیں گے” اور شہید کمبر چاکر دو مرتبہ زندان میں دشمن کو باور کراکے آئے تھے اور خود کو قوم و وطن پہ قربان کرنے میں ایک بار ان کے قدم نہیں ڈگمگائے کیونکہ شہید کمبرچاکر تو اپنے راہشون شہید غلام محمد کا سیاسی ہمسفر تھا جس نے اپنے ہمسفروں کو ہمیشہ یہی کہا کہ ” اگر ہم دوسرے ساتھیوں کے شہید ہونے پہ انہیں سلام پیش کرتے ہیں تو ہمیں خود کیلئے بھی شہادت کی راہ کو چننا ہوگا” شہید کمبر چاکر تو اسی مکتب کا پڑھا ہوا تھا کیونکر شہادت سے گھبراتا، اسے تو امر ہونا تھا اسے تو بلوچ نسلوں کیلئے لٹریچر بننا تھا تبھی تو وہ کبھی موت سے مرعوب نہیں ہوئے۔ وہ خود کہتا ہے کہ ” دوران زندان دشمن ہم سے پوچھا کرتا تھا کہ آپ کا فنڈ کہاں سے آتا ہے؟ لٹریچر کہاں سے آتا ہے ؟ تو میں آج دشمن کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہمارا لٹریچر ہمارے شہداء کا خون ہیں ہماری ماؤں کی انکھوں سے چھلکتے ہوئے آنسو ہیں” شہید کمبر چاکر آج حقیقتاً ہمارے لیے ایک کھلی کتاب اور لٹریچر کی مانند ہیں۔ اتنی کم عمری میں اتنی بلندی تک پہنچنے والا شہید کمبر چاکر آنے والے نسلوں کیلئے ایک ایسی مثال رقم کرکے ہمیں یہ درس دے کے گئے کہ قومی آزادی کی جدوجہد میں ظاہری جسامت اور عمر کوئی معنی نہیں رکھتا بلکہ اس کیلئے شعوری طور پر مضبوط ہونا اولین شرط ہے اور نہ ہی قومی آزادی کی جدوجہد بغیر قربانیوں کے مکمل ہوسکتی ہے۔ اس سفر میں خونی رشتوں کو بھی خیر آباد کہنا ہوگا اور اس سفر میں زاتی خواہشات و آسائشوں کو بھی قربان کرنا ہوگا، شہید کے بارے میں مشہور ہے کہ گھر والے اکثر اسکے سیاسی سرگرمیوں پر اسے ڈانٹا کرتے تھے اور کبھی کبھار تو گھر والوں کی طرف سے انہیں تشدد کا سامنا بھی کرنا پڑا،انکو گھر میں نظر بند بھی رکھا گیا لیکن شہید ہمیشہ قومی آزادی کی جدوجہد کو سب سے اوپر رکھا کرتے تھے آج ہم میں سے کتنے لوگ گھر کا بہانا بنا کر قومی جدوجہد سے فراریت اختیار کرتے ہیں اور کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن شہید کمبر چاکر تو ہمیں یہی درس دے گئے تھے کہ اس جدوجہد میں ہر طرح کی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیے اور شہید نے اپنے خون سے قوم و وطن کا قرض اتارا اور پانچ جنوری دو ہزار گیارہ کو اپنے ہمسفر ، دوست، سیاسی سنگت، شہید الیاس نذر کے ساتھ شہید کرکے دشمن نے تربت میں ان کی مسخ شدہ لاش پھینک دی۔ اور وہی قول ان پہ صادق آتا ہے کہ آپ کس کردار کے مالک تھے اس کا پتہ آپ کے زندگی میں نہیں چلتا بلکہ موت کے بعد آپ کے ساتھ کون ہوتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے اور شہید کمبر چاکر کے پہلو میں تو وطن کا ایک اور کم عمر سچا فرزند شہید الیاس نظر تھے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔