یہ ہو کیوں رہا ہے؟ اور میں کروں کیا؟ – نُود شنز ہلمندی

460

یہ ہو کیوں رہا ہے؟ اور میں کروں کیا؟

تحریر: نُود شنز ہلمندی

دی بلوچستان پوسٹ

جب اس دنیا کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ جتنے بھی سامراج گذرے ہیں، انہوں نے محکوم اقوام پر کم و بیش ایک ہی طریقہ کار سے ہی اپنے قبضے کو جمائے رکھا ہے۔ کسی بھی قبضے کو جمائے رکھنے کیلئے سب سے بڑی طاقت اور عموماً حربہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اس سماج کہ جس کو وہ محکوم بنانا چاہتے ہیں، اس کے آواز کو دبانے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں، جسے controlled society کہا جاتا ہے، اور ایسے سماج میں ایک علاقے کی خبر دوسرے تک نہ پہنچ سکے، اس کیلئے سامراج ان زرائع ابلاغ، جن پر خبر گردش کرنے کی زمہ داری ہوتی ہے ان پر قابو کیا جاتا ہے، جسے censorship کہا جاتا ہے۔ صرف وہ اخبارات شائع کی جاتی ہیں جو سامراجی مفاد میں ہوں اور وہ فلم دیکھی جا سکتی ہیں جو مندرجہ بالا مفاد میں ہوں اور وہ خبر نشر کی جاتی ہیں جو سامراجی منشا و چاہت پر مبنی ہوں، اس سے اس سماج کہ جسے اسکے علاقائی لوگوں( indigenous persons) کو یہ نقصان ہوتا ہے کہ وہ اس چیز سے غافل ہوتے ہیں کہ انکے حقوق کیا ہیں، اور انکی ذمہ داری کیا ہیں اور دور جدید میں زندگی گذارنے کے تقاضوں سے غفلت اسکے غیر اور بد آمد (unwanted) اثرات ہوتے ہیں، کیونکہ کسی بھی تحریک، گویا وہ کسی قانونی دائرے (within constitutional framework) ہو یا کسی معلق اور غیر ضروری نظام (status quo)کو تبدیل کرنے کیلئے کیجائے اس کیلئے لوگوں کا ایک صفحے پر ہونا لازم اور ملزوم ہے۔ اور اس مقصد کے حصول کیلئے لازمی شہ علم اور شعور ہے جو کہ حالات کے خبر سے وابستہ ہے جسے سامراج پہلے سے اپنے گرفت میں کیئے ہوئے ہوتا اور کرتا ہے۔

زرائع ابلاغ کے ساتھ ساتھ سامراج کی توجہ کا مرکز ہوتا ہے، وہ آبادی جو اسکے استحصال کا شکار ہے جسے وہ اپنے ایڑی کا زور لگا کر تبدیل کرتا ہے، اس عمل کو (ethnic cleansing) کہا جاتا ہے کہ جس میں مقامی آبادی کو درآمد یعنی باہر سے آنے والی آبادی سے اقلیت (minority) میں تبدیل کیا جاتا ہے جسکی مثال “اور سالم” فلسطین اور ہمارے ہاں گوادر پروجیکٹ کے نام پر چائنیز شہر (Chinese city) کے نام سے گوادر میں چینی شہریوں کو لانا اور بلوچ آبادی کو ( over populate) کرنے کی ناکام کوشش ہے۔ اور اگر ان دونوں حربوں کا جائزہ لیا جائے، پاکستانی سامراج کا بلوچوں بلکہ دوسرے محکوم اقوام پر تو ان حربوں کو نہ صرف اس نے استعمال کیا بلکہ ان سے ایک قابل ستائش انداز میں مستفید بھی ہوا ہے، جسکی مثال پنجاب میں 3 کروڑ بلوچ سندھ کی نصف بلوچ آبادی ہے جو تقریباً اپنی قومی ساخت کھو چکے ہیں یا اس ڈگر پر ہیں کہ وہ اپنی بچی کچھی پہچان کو کنفیوز کیئے ہوئے ہیں، یا شاید وہ جن نام نہاد صوبوں سے تعلق رکھتے ہیں وہاں سماجی ہم آہنگی (social approval ) حاصل کرنا مقصود ہو۔ اور زرائع ابلاغ جس طرح کنٹرول کیا جاتا اور ہوتا آرہا ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، جسکی مثال صحافیوں کا قتل عام اور انکو ڈرانا شامل ہے۔

تیسرا اور اہم پہلو یہ ہے کہ سامراج اس کالونی کو جمائے رکھنے کیلئے لوگوں میں خوف پھیلاتا ہے، جو ممکن ہے اسوقت جب اپنے ہی معاشرے میں اپنے ہی ہمنوا کو اپنے سے الگ اور اپنے مفادات کا دشمن )enemy of self interest ) سمجھنا شروع کر دیتے ہوں اور یہ اس برطانوی پالیسی کی توسیع ہے کہ بانٹو اور حکومت کرو ( divide and rule ) ہے۔ اور ان لوگوں کو ایک ایسی معاشی تنگی سے دو چار کرنا کہ وہ چاہ کر بھی اسکا مقابلہ نا کر سکیں اور ایسے میں جو خرافات جنم لیتے ہیں وہ بد عنوانی اور نا اتفاقی ہوتے ہیں، جسکے تانے بانے سامراجی مفادات سے ملکر ختم ہوتے ہیں۔ ان حالات میں لوگوں میں شعور اور خبر کو پہنچانے کیلئے سب سے پہلی چیز اور حل ہے کہ ان خرافات کا حل کیا ہے؟ اور اس چیز کا ادراک کہ یہ ہو کیا رہا ہے؟اور اسکا حل کیا ہے ؟
اسکا حل ہے اپنے اپنے بساط کے مطابق لوگوں تک جس زریعے سے ہو لوگوں کو بالخصوص اور دنیا کو بالعموم با خبر کرنے کی جستجو اور کوشش، چاہے وہ ایک آرٹیکل ، مکالمہ یا شاعری ہو، جو ان خرافات کی نشاندہی کرے جو اس استحصال کو تقویت بخشتے ہیں۔

اس بات اور احساس کو اجاگر کرنا کہ انسان صرف اپنے ہی شناخت اور نام سے جانا اور مانا جاتا ہے، اگر میرے رگوں میں بلوچ کا خون دوڑ رہا ہے تو کیونکر میں سندھی یا پنجابی بنوں۔ اس سے جو مجھے خود سے ناشناس کرنے کی سامراجی آرزو ہے وہ ناپید ہوتی چلی جائیگی۔ مندرجہ بالا مقصد کے حصول کیلئے لازمی ہے کہ سامراجی سوالات جو لوگوں کے ذہنوں میں بٹھائی گئی ہیں انکی تشخیص اور انکو کاؤنٹر کرنا اور عوام کے زہن سے ان سوالات کا خاتمہ کرنا، یہ صرف اور صرف ممکن ہے اک منظم اور شاطر تنظیم کاری سے جو لوگوں کے جز بات کو ایک طرح ابھارنا اور انکو ساکن ہونے سے پرہیز کرنا دوستوں کی ترجیحات میں شامل ہوں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔