محاذ – شمشیرالحیدری | مشتاق علی شان

204

محاذ

شاعر: شمشیرالحیدری
ترجمہ: مشتاق علی شان

دی بلوچستان پوسٹ

(نوٹ:شمشیر الحیدری سندھی شعر وادب کا معتبر ترقی پسند حوالہ ہے، ان کی شاعری میں اعلیٰ انسانی آدرش محنت کشوں اور محکوم، مظلوم قوموں کی زبردست حمایت کی صورت اپنا طاقتور اظہار کرتے ہیں. ساٹھ کی دہائی میں کانگو کے جواں مرگ وطن پرست انقلابی پیٹرس لوممبا کی شہادت پر اگر ان کا قلم تیع براں بن جاتا ہے تو اسی زمانے، جولائی 1964میں وہ سندھ کے پڑوس میں واقع بلوچ قوم کے سرفروشوں سے درج بالا نظم “محاذ” کی صورت مخاطب ہوتے ہوئے سارے مردودوں کی موت کا عندیہ دیتے ہیں. گواس نظم کی تخلیق کو نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا لیکن شمشمیر الحیدری کے قول کے بموجب “جنگ ابھی ہے زوروں پر”. )

( بلوچوں کی مزاحمتی جنگ کے بارے میں)

ایک طرف ہے بم بارود
ایک طرف ہے دل کا دُود
جنگ ابھی ہے زوروں پر

بستی بستی ایک ہجوم
اک ظالم ہے اک مظلوم
ہر جا ہے بس ایک ہی دھوم
کوئی نہ ہو گا اب محکوم
ماریں گے ہم سب مردود
جن کی فاتحہ اور نہ درود

بند کرو سب ساز سرود
جنگ ابھی ہے زوروں پر


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔