جے یو آئی فیصلہ کن تحریک کی تیاری میں – خالدولیدسیفی

202

جے یو آئی فیصلہ کن تحریک کی تیاری میں

خالدولیدسیفی

دی بلوچستان پوسٹ 

7 جولائی کوسکھر میں ہونے والے مرکزی انتخابات اور اس میں محترم امیر مرکزیہ و جنرل سکریٹری کے چناو کے بعد پورے ملک میں جمعیت علماء اسلام کی تنظیم سازی مکمل ہوچکی ہے، جس کی تکمیل کا دورانیہ جو رکنیت سازی سے لیکر مقامی، صوبائی اور مرکزی انتخابات سمیت کم و بیش 7سے 8 ماہ کے عرصے پر محیط تھا، اپنے اختتام کو پہنچا۔

ممبر سازی اور انٹرا پارٹی الیکشن کسی بھی جماعت کیلئے اہمیت کے حامل اس لئے ہوتے ہیں کہ اس سے تنظیم کی رگوں میں نیا خون شامل ہوجاتا ہے۔۔نئی کھیپ جو یونٹوں سے لیکر مرکز تک کی ذمہ داریوں کا حصہ بنتی ہے، وہ تازہ دم دستے کی طرح جماعت کے پروگرام اور پالیسیوں کو آگے بڑھانے کیلئے زیادہ پرجوش اور پرعزم دکھائی دیتی ہے۔
۔
ہر پارٹی میں یقینا رکنیت سازی اور تنظیم سازی کے دوران بہت سارے حقیقی و دیگر غیر حقیقی تضادات بھی سر اٹھاتے ہیں، اور گلے و شکوے بھی زبان زد عام ہوجاتے ہیں، جنہیں جمہوری عمل کا حصہ سمجھ کر آگے منزل کی طرف نظر رکھنا چائیے، اگر انتخابی عمل کے گلے شکوے یا ناراضگیوں کو دائمی مسائل بناکر سوشل میڈیا یا چوکوں چوراہوں پر اچھالا جائے تو یہ جماعت کے ساتھ خیر خواہی نہیں کہلائی جاسکتی ہے، البتہ جہاں جہاں سنجیدہ شکایات اور تحفظات ہوں تو وہاں کی جماعت یا اس سے بالائی جماعت کو ان کے حل پر غور و فکر ضرورکرنا چاہئیے۔

گذشتہ کچھ عرصوں سے تنظیمی صفوں میں شخصیت پرستی کا ایک عجیب و غریب تاثر ابھارنے کی جو کوشش ہوتی رہی ہے یہ عمل نہ جماعت کے مفاد میں تھا اور نہ ہی ان محترم شخصیات کے، جنکی ذات کو سو رنگوں میں لپیٹ کر پیش کیا جاتا رہا، میں بذات خود مرکزی قیادت کے سوا باقی نچلی سطح پر جمہوری عمل کے ذریعے ہر قسم کی تبدیلی کو بہتر سمجھتا ہوں، شخصیات آتی جاتی ہیں بنیادی چیز پارٹی کے نصب العین سے جڑے رہ کر کام کرنا ہوتا ہے۔ گذشتہ تین چار سالوں میں کچھ مخلص مگر نادان ورکرز کی جانب سے کسی شخصیت کی توصیف اور کسی کی تنقیص میں سوشل میڈیا کا جس غلط انداز میں استعمال کیا گیا ہے وہ غیرمناسب عمل ہے۔اب ان سب کو ایک طرف رکھ کر گلے ملنے اور پارٹی پروگرام کو آگے بڑھاکر دشمن کی صفوں میں کھلبلی مچانے کا وقت ہے۔

جمعیت علماء اسلام ملک میں واحد پلیٹ فارم ہے جس نے مذھبی سیاست کو ایک نئے آہنگ سے متعارف کروایا ہے، دلیل و برہان اور شائستہ طرز فکر کے ذریعے دھیرے دھیرے لوگوں کے ذھن میں یہ بات نقش کی گئی کہ ملکی سیاست میں مذھبی لوگوں کا شامل ہونا، بلکہ ایک متحرک و فعال کردار ادا کرنا از حد ضروری ہے۔

جمعیت علماء اسلام جس قدر داخلی و خارجی نشیب و فراز سے گزرا ہے کسی بھی اور جماعت کو ایسے حالات کا سامنا ہوتا تو اسے اپنے وجودالبقاء کا مسئلہ درپیش ہوجاتا کہ ان کھٹن حالات میں جماعت کے شیرازے کو کس طرح منتشر ہونے سے بچایا جائے، یہ بات کس سے پوشیدہ ہے کہ جمعیت کے مقابلے میں ہمیشہ ٹھیلوں کو چٹان بناکر پیش کیا گیا ہے، تاکہ مذھبی فکر کو تقسیم در تقسیم کا شکار کیا جائے، رات کی تاریکیوں میں جذبات کو بڑھکانے والے سلوگن ایجاد کرکے کچھ مصنوعی مذھبی قیادتیں میدان میں اتاری گئی ہیں، جنہوں نے لوگوں کے جذبات کو ہوا دے کر اسلام کی غلط تصویر پیش کی ہے، راتوں رات کھڑی کی جانے والی مذھبی جماعتوں کے پلیٹ فارمز سے سیاست کو مصلحت کوشی سے تعبیر کیاگیا، جس کا اصل مقصد جمعیت کو کمزور کرنا تھا کہ پاکستان میں اسلامی انقلاب کے خواب کی تعبیر جے یو آئی کے سیاسی بیانئیے سے ممکن نہیں، لیکن نگاہ بلند قیادت جے یو آئی کے سفینے کو نہ صرف ان چلتے طوفانوں سے بچاکر ساحل پر لے آئی بلکہ یہ جماعت اب ملک کی بڑی جماعتوں کی صف میں ہے۔آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں جے یو آئی ایک نئے عزم کے ساتھ چٹانوں سے ٹکرانے کا جذبہ لئے میدان میں دیگر جماعتوں سے دو قدم آگے کھڑی ہے۔

جس جمہوری جنگ کا آغاز جے یو آئی نے کیا ہے وہ ایک آسان فیصلہ نہیں ہے، لیکن کسی نہ کسی سیاسی جماعت کو بہرحال اس وادی پرخار میں قدم رکھنا تھا اور وہ جماعت جے یو آئی اور اسکی قیادت کے سوا اور کوئی نہیں ہوسکتی ہے کیونکہ باقی سارے بہتے گنگا میں نہا چکے ہیں، انہیں ڈر ہے کہ اگر وہ ” مقدس مقامات” کے خلاف ریڈ زون کراس کرگئے تو کسی بھی وقت کوئی فاعل کسی جج صاحب کی ٹیبل پر ہوگی یا کوئی ویڈیو سوشل میڈیا کی اسکرین پر رقص کرتی انکی عزت و آبرو کی ہنڈیا کو بیچ چوراہے پھوڑ رہی ہوگی۔

جے یو آئی کی قیادت سمجھتی ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ اب اس بات کا فیصلہ ہوجانا چائیے کہ اس ملک کو کس نے چلانا ہے، پارلیمنٹ کے فیصلے کون کرے اور سرحدوں کی حفاظت کی ذمہ داری کس کی ہے۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ یہ ایک طویل اور اعصاب شکن جنگ ہے، آگے جاکر دیگر جماعتیں ایک ایک کرکے کھسکتی جائیں گی اور جمعیت میدان میں اکیلی کھڑی ہوگی، اس لئے ضروری ہے کہ تنظیم میں ورکرز کی صفیں مضبوط ہوں، جے یو آئی کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت ہی اصل کام ہے جس پر ورکرز کی نظر رہے، معمولی رنجشوں، عہدوں پر نہ آنے کی تلخیوں اور بعض ذاتی نوعیت کی پسند نا پسند جیسے مسائل کو اگر مستقل انا کا مسئلہ بنایا جائیگا تو اسکا فائدہ وہ طاقتیں اٹھائیں گی جنکی نظر میں مضبوط جے یو آئی انکے مفادات کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ کیا خیال ہے جب ہم ایک ایسی طاقت کو چیلنج کرنے جارہے ہیں جو اس ملک کی مقدس گائے کا درجہ رکھتی ہے، جو چائیے اپنے کرشموں سے دن کو رات، اور رات کو دن میں بدل سکتی ہے، جس کی گیسوئے سیاہ میں پہنچ کر ہر تیرگی حسن کہلاتی ہے، تو وہ طاقت جمعیت کو توڑنے کے منصوبوں پر غور نہیں کررہی ہوگی؟ اس کی تو پوری کوشش ہوگی کہ معمولی قسم کی داخلی کمزوریوں کو ہوا بناکر جماعتی صفوں میں بعض افراد کو سنہرے خواب دکھا کر تنظیم میں انتشار کی ایک ایسی کیفیت پیدا کی جائے کہ جے یو آئی قیادت تنظیمی الجھاو سے باہر ہی نہ نکل سکے
اور انہیں مقتدرہ کی ناہنجاریوں کی طرف دیکھنے کی فرصت ہی نہ ملے۔

یہ خوش آئند امر ہے کہ اس وقت جے یو آئی اپنے عروج کے سب سے خوبصورت دور سے گزر رہی ہے، مذھبی حلقوں کے علاوہ عوامی سطح پر پہلی بار پارٹی بیانئیے کو پذیرائی ملی ہے، عوام کے مسائل عوامی زبان میں عوام کے سامنے رکھے جارہے ہیں، جے یو آئی سے متعلق یہ تاثر بھی اب ختم ہوچکا ہے کہ یہ سخت اور پرتشدد نظریات کی حامل ایک مخصوص دائرے کے گرد گھومتی جماعت ہے جس میں ٹھیٹھ مذھبی افراد کے علاوہ کسی اور کی گنجائش نہیں ہے، یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ جمعیت ایک جمہوری اور عوامی جماعت ہے، جسکی قیادت علماء کے ہاتھ میں ہے اور وہ اس ملک کے ظالمانہ نظام کی جگہ عادلانہ نظام کی جدوجہد میں مصروف ہے، ایک ایسا نظام جس میں امیر وغریب کیلئے انصاف کے یکساں مواقع ہوں اور بھوک، پیاس اور غربت کے خاتمے کیلئے وسیع پروگرام ہو، تعلیم و تربیت کے ذریعے قومی شعور کی پرورش کی جائے اور یہ ملک عالم اسلام کے ماتھے کا جومر بن کر ابھرے۔

ممبر سازی اور تنظیم سازی مکمل ہے۔ پورے ملک میں جماعت کی تشکیل نو ہوچکی ہے، اب جو کرنے کا کام ہے وہ یہ ہے کہ پارٹی ورکرز اپنی اپنی سطح کی قیادت کو مضبوط اعتماد فراہم کرکے طاقت ور بنائیں اور بلند عزائم کے ساتھ عوام کو جے یو آئی کی جانب سے شروع کی جانے والی عوامی تحریک کا حصہ بنانے میں اپنا جماعتی اور نظریاتی کردار ادا کریں۔

پاکستانی پارلیمنٹ میں جانے کا فیصلہ عوام کا ہو یا مقتدرہ کا؟ جے یو آئی نے اس تحریک کی بنیاد رکھی ہے، یہ میری آپکی اور ہر اس شخص کی تحریک ہے جو آمریت کی بجائے جمہوری قدروں پر یقین رکھتا ہے۔۔گذشتہ ملین مارچ اس تحریک کا پہلا فیز تھا اور آنے والا ملین مارچ دوسرا فیز ہے، جنکی کامیابی کا انحصار قیادت سمیت ورکرز کی شبانہ روز محنت پر ہوگی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔