بلوچستان میں ٹیتھیان سمیت تمام کمپنیوں کی سرمایہ کاری عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے ۔ بی این ایم

162

چین کی بلوچستان میں موجودگی کی اصل وجہ بلوچستان کے تزویراتی اہمیت کے حامل ساحل اوربیش قیمت و لامحدود وسائل ہیں، چین کی آمد کے بعد بلوچستان دہری غلامی کا شکار ہوچکا ہے – بی این ایم ترجمان

بلوچ نیشنل موومنٹ کے ترجمان نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ عالمی بینک کے ثالثی فورم کی جانب سے ٹیتھیان کاپر کمپنی کو چھ ارب ڈالر ہرجانے ادا کرنے کے فیصلے سے پہلی بار یہ آشکار ہوا ہے کہ بلوچستان میں پاکستان کس انتہا درجے کی لوٹ مار کر رہا ہے۔ صرف ایک منصوبے پر معاہدہ منسوخ ہوا ہے جبکہ ایسے سیندک سمیت متعدد منصوبوں پر روزانہ کروڑوں ڈالر کے وسائل کی لوٹ مار گذشتہ ستر سالوں سے جاری ہے۔ اگر ایک کمپنی سے معاہدے کی منسوخی پر اتنی بڑی رقم بطور ہرجانہ کے طور پر ادا کرنا ہوگا تو اس سے یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ پاکستان ان سترسالوں میں بلوچوں سے کھربوں ڈالر کے وسائل لوٹ چکا ہے۔

ترجمان نے کہا پاکستان معاشی طورپر دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لئے حال ہی میں آئی ایم ایف سے چھ ارب ڈالر قرض لینے کے لئے معاہدہ کرچکا ہے۔ پاکستان قطعی طورپر اس قابل نہیں کہ اتنی بڑی رقم ادا کرے بلکہ پاکستان ریکوڈک کو دوبارہ اسی کمپنی یا کسی اور ملک کو اونے پونے داموں بیچ دے گا۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی کٹھ پتلی حکومت نے پہلی بار ریکوڈک کو 1993 میں ایک امریکی کمپنی بروکن ہلز پراپرٹیز منرلز کو پچیس فیصد حصص کے عوض بیچ دیا تھا لیکن آسان شرائط کی وجہ سے امریکی کمپنی نے اپنے شیئرز ایک آسٹریلوی کمپنی ٹھیتیان کاپر کمپنی کو فروخت کیئے اور بے پناہ معدنی دولت دیکھ کر کینیڈا اور چِلی کی دو کمپنیوں کے کنسورشیم نے آسٹریلوی کمپنی ٹھیتیاں کاپرکمپنی کے تمام شیئرز کو خرید لیا۔ 1993 سے 2011 تک اس منصوبوں پر کام جاری رہا بلکہ صحیح معنوں میں بلوچ قومی دولت کی لوٹ مار جاری رہا لیکن اس سے بلوچستان اور بلوچ قوم کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔ پھر پاکستانی سپریم کورٹ نے یہ معاہدہ منسوخ کرایا۔ اس کے خلاف کمپنی نے عالمی ثالثی عدالت کا رخ کیا جس کا بلآخر فیصلہ ٹھیتیان کاپر کمپنی کے حق میں آگیا جس کے مطابق پاکستان کمپنی کو چھ ارب ڈالر ہرجانہ ادا کرے گا۔

ترجمان نے کہا کہ ریکوڈک سے قبل 1995 سے سیندک کے مقام سے سونا، چاندی اور تانبے کی لوٹ مار جاری ہے۔ پہلے ہی سال کمپنی نے جو اعداد و شمار ظاہر کیئے ان کے مطابق پندرہ سو میٹرک ٹن تانبے اور سونا نکالی گئی ہے۔ 2003 سے دن رات بلوچ قوم کے اس بڑے دولت کو پاکستان اور چین گدھ کی طرح نوچ رہے ہیں۔ ان منصوبوں سے کتنی مقدار میں لوٹ مارکی جارہی ہے یہ سربستہ راز ہے۔ تاہم کمپنی نے 2016 کوجو اعداد وشمار دیئے ہیں ان کے مطابق اسی ایک سال میں 14 ہزار 136 ٹن تانبا نکالا گیا جبکہ 11 ہزار 33 کلو گرام سے زائد سونا اور 1706 کلو گرام چاندی بھی نکالی گئی ہے۔ اس نام نہاد سرمایہ کاری سے مقبوضہ بلوچستان کے حصے میں دو فیصد آتا ہے جو کرپشن اور پاکستان سے وفاداری خریدنے کے عوض دلالوں کو دی جاتی ہے جبکہ سیندک کے آس پاس کے آبادی جیسے نوکنڈی، تافتان اور دالبندین جیسے علاقوں میں آج بھی پینے کے پانی سے محروم ہیں دیگر سہولیات ِ زندگی تو بہت دور کی بات ہے۔

ترجمان نے کہا کہ اسی طرح سترسالوں سے سوئی گیس سمیت بلوچ قومی دولت کی لوٹ مار جاری ہے اوراس دولت کے مالک دو وقت کی روٹی کے محتاج ہیں۔ چین کی بلوچستان میں موجودگی کی اصل وجہ بلوچستان کے تزویراتی اہمیت کے حامل ساحل اوربیش قیمت و لامحدود وسائل ہیں اور چین کی آمد کے بعد بلوچ قومی وسائل کی لوٹ مار میں بے پناہ اضافہ ہوا اور بلوچستان دہری غلامی کا شکار ہوچکا ہے بلوچستان ایک مقبوضہ خطہ ہے جس میں سرمایہ کاری خواہ کسی بھی شکل میں ہو وہ بلوچ قوم کے مرضی ومنشا کے برعکس ہے اور عالمی قوانین بھی کسی مقبوضہ خطے میں سرمایہ کاری کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا ٹھیتیان سمیت تمام سرمایہ کارکمپنیوں اورممالک کو مقبوضہ بلوچستان میں سرمایہ کاری سے پہلے بلوچستان کی تاریخ، قبضہ گیریت اور پاکستان کی پوزیشن کو ملحوظ ِنظر رکھنا چاہیئے اوراس مقبوضہ سرزمین پر سرمایہ کاری سے گریز کرنا چاہیئے۔