بولان و آواران آپریشن میں عام آبادیوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے – ماما قدیر

170

لاپتہ افراد کی بازیابی کےلئے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے پرامن احتجاجی کیمپ جاری ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ نمائندہ کوئٹہ کے مطابق کوئٹہ میں پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے قائم احتجاجی کیمپ کو 3620 دن مکمل ہوگئے جبکہ مشکے سے سیاسی و سماجی کارکنان کے وفد نے کیمپ کا دورہ کرکے لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

وی بی ایم پی کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے ہمارے بھوک ہڑتالی کیمپ کو دس سال مکمل ہورہے ہیں مگر بجائے لاپتہ افراد کے مسئلے کے حل ہونے کے آرمی تیزی سے شہریوں کواغوا کررہا ہے اور لاپتہ افراد کے تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے اس وقت بولان اور آواران سمیت بلوچستان بھر میں فوجی آپریشن جاری ہے جن میں عام آبادیوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے، بلوچستان بھر میں یہ خونریز آپریشن 2004 سے جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیر داخلہ ضیا لانگو نے اعلان کیا کہ وہ لوگوں کے اغواء کو بند کرائیں گے مگر اس اعلان کے بعد شہریوں کے اغواء کرنے کے عمل میں مزید تیزی آئی ہے ۔ اب تو اجتماعی سزا کے طور پر خواتین و شیر خوار بچوں کو بھی اغواء کیا جارہا ہے۔ شہریوں کے اغوا کاری کا یہ سلسلہ 70 کے دہائی میں سردار عطااللہ مینگل کے فرزند اسد بلوچ سے شروع ہوا اور 2000 کے اوائل مشرف دور میں اس میں کافی تیزی آئی ہے اور روز بروز یہ عمل تیز ہوتا جارہا ہے۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ پاکستان میں قومی اسمبلی، سینٹ، پارلیمنٹ، انتخابات، ووٹ ہاتھی کے وہ دانت ہیں جو صرف دنیا کو دکھانے کے لیے ہیں، ایک غیر جمہوری ریاست اپنی پوری ریاستی طاقت کے ساتھ ایک طرف کھڑا ہے پھر جانبدار صحافی، دانشور ریاستی آلہ کار کے طور پر اس کی پشت پر موجود ہو تو نظریہ ضرورت کے بنیاد پر قائم ایک عدالتی نظام ہر ریاستی غیر آئینی اور غیر قانونی اقدام کو آئین اور قانون کو تشریح فراہم کرتے ہیں۔ ان سب کا مشترکہ کوشش حق کو باطل، مظلوم کو ظالم، جھوٹ کو سچ اور اپنی دفاع اور بقا کی فطری وصف مزاحمت کو دہشت گردی قرار دینا ہوتا ہے، یقیناً ظلمت کی کالی رات کو ایک عرصے تک حکومت کے پیرائے میں پیش کیا جاسکتا ہے لیکن اُس حکومت اور ظالم ریاست کو طویل عرصے تک قائم نہیں کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کے لواحقین کی پرامن جدوجہد نے ظالم کے سامنے جھکنے کے بجائے آواز بلند کی جس کی صدائے اسلام آباد کے ایوانوں سے ٹکرا رہی ہے۔ پرامن اور جمہوری انداز میں مدلل اور منطقی جنگ ہارنے کے بعد ریاست پاکستان نے اپنی پوری ریاستی قوت بلوچ کے آواز کو دبانے کیلئے تاریخ کی بھیانک ترین فوجی آپریشنوں کا آغاز کرددیا ہے اس کے ساتھ ریاستی تشکیل کردہ ڈیتھ اسکواڈ گروپوں کے ذریعے بلوچوں کا قتل عام بھی جاری ہے۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ اب بلوچوں کے ساتھ ساتھ پاکستان آرمی سندھیوں، پشتونوں، ہزارہ، کشمیروں، گلگت بلتستان کے شہریوں، مہاجروں حتٰی کے سوچنے، سمجھنے و حق و سچ کی آواز بلند کرنے والے پنجابیوں کو بھی اغوا کررہا ہے۔

انہوں نے کہا شہریوں کے آرمی کے ہاتھوں ماروائے عدالت اغواء و دیگر ریاستی مظالم کے خلاف 16 جون بروز اتوار پاکستانی وقت کے مطابق شام 8 بجے سے لیکر 11 بجے تک سوشل میڈیا میں “ہِنڈ انفورسڈ ڈِس اپریئنسز “ (End Enforced Disappearances کے عنوان سے ایک مشترکہ کمپین کیا جائے گا، میرا تمام انسان دوستوں سے اپیل ہے کہ اس کیمپین میں حصہ لیکر لاپتہ افراد کے مسئلے کو اجاگر کرنے میں اپنا کردار ادا کریں ۔