انسانی المیوں میں ماند پڑتی عید کی خوشیاں – شہیک بلوچ

161

انسانی المیوں میں ماند پڑتی عید کی خوشیاں

تحریر: شہیک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

عید کے تہوار کو لے کر جو خوشیاں منائی جاتی ہیں، ان کا تصور بلوچستان میں اب نہیں کیا جاسکتا۔ اب ہر خوشی کا تہوار بلوچ مسنگ پرسنز کے خاندانوں کے لیے اذیت لے کر آتا ہے۔

باپ اپنے بیٹے کی راہ تکتا ہے، اس کے بوڑھے کاندھوں سے یہ بوجھ نہیں اٹھتا کہ وہ اس عمر میں بیٹے کا پتہ لگا پائے۔ اس نے تو یہی امید لگائی تھی کہ آگے ذمہ داریاں بیٹے کے کندھوں پر منتقل ہوتی رہینگی لیکن اس کے کندھے پر کچھ ایسا بوجھ ہے جو ناقابل بیان ہے۔

ماں کی ممتا کا تصور اور دوسری جانب اولاد کی گمشدگی، ہر دن ہر لمحہ وہ دروازے کی چوکھٹ پر نظریں جمائے رکھتی ہے لیکن ہر لمحہ اس پر قیامت بن کر ڈھتا ہے۔ وہ جنم سے لے کر اپنے کوکھ میں دی جانے والی پہلی لوری سے لے کر پہلے قدم چلنے تک اور جوانسالی تک ہر اس لمحہ کو شدت سے یاد کرتی ہے، جب اس نے ہر عید اپنے لخت جگر کیساتھ گذاری تھی، اب اس کی عید میں اس کے بیٹے کو گھسیٹ کر لے جانے اور طویل عرصہ لاپتہ کرنے کا سناٹا ہے۔ وہ شاید کسی بھی لمحہ اس کی یاد سے غافل نہیں ہوسکتی۔

جو شادی شدہ ہیں ان کے بچے اپنے والد کی تصویر لیے پھرتے ہیں، نوآبادیاتی نظام ہاتھوں سے کھلونے چھین کر گمشدہ احباب کی تصویر ننھی سی ہاتھوں میں تھما دیتا ہے۔

ایک واقعہ خضدار میں پیش آیا جہاں والد اپنے بیٹے کی سالگرہ کے لیے کیک خریدنے جاتا ہے، واپسی پر اس کی لاش آتی ہے۔ یہ جذباتی باتیں نہیں بلکہ نوآبادیاتی نظام کی وہ حقیقتیں ہیں جن سے منہ نہیں موڑا جاسکتا۔ ماما قدیر اپنے پوتے کا انگلی پکڑ کر اسے اس کی والد کی مسخ شدہ لاش دکھاتا ہے۔ یہ کونسا انسانی معاشرہ ہوسکتا ہے جہاں ایک سیاسی کارکن کو اس بیدردی کیساتھ قتل کیا جاسکتا ہے؟ یہ نوآبادیاتی نظام ہے۔ کئی مائیں جو اپنے بچوں کی انتظار میں فوت ہوگئیں۔ ڈاکٹر دین محمد کی والدہ بھی اب زندہ نہیں۔

اسی طرح کافی مسنگ پرسنز کی بیویاں ذہنی طور پر بیمار ہوچکی ہیں۔ ایک واقعہ جس میں اس امید پر عید کے کپڑے لیئے والد آتا ہے کہ اس عید کو شاید اس کا لاپتہ بیٹا گھر آجائے تب اسے پتہ چلتا ہے کہ اس کے گمشدہ لڑکے کی لاش ملی ہے۔ اس وقت جس المیئے سے بلوچ قوم گذر رہی ہے، اس کی تمام تر وجوہات نوآبادیاتی نظام میں پیوست ہیں۔ نوآبادیاتی نظام نفسیاتی بیماریوں کی آماجگاہ ہوتی ہے یہ جبر کا سب سے بدترین نظام ہے۔

آج کئی بلوچ فرزند شہید ہوچکے ہیں اور کافی اغواء شدہ گرفتاریوں کا شکار ہیں اور کئی تحریک کا عملی حصہ ہیں۔ ان سب تکالیف کا پیدا کردہ غاصب ریاست ہے اور ان سے نجات کے لیئے بلوچ قوم کو اجتماعی قومی نظریہ اپنانے کی ضرورت ہے۔ بار بار کے رونے سے ایک بار کا رولینا بہتر ہے تاکہ آئندہ نسل میں کسی بلوچ ماں کو عید پر اپنے بیٹے کا انتظار نہ کرنا پڑے۔ کسی ماں کو اپنے بیٹے کی قربانی دینا نہ پڑے۔ بچوں کے ہاتھوں میں قلم، کتاب اور کھلونے ہوں۔ بلوچ سماج ایک اعلیٰ انسانی معیار کا سماج ہو۔ لیکن اس کے لیئے ایک طویل المدتی جدوجہد کی ضرورت ہے۔

بلوچ نیشنلسٹ قوتیں انسانی بحران بابت ایک منظم احتجاج کا لائحہ عمل طے کریں اور اس حوالے سے سندھی اور پشتون قوم کو ساتھ لے کر چلنا ضروری ہے تاکہ مظلوموں کی جدوجہد میں تیزی آئے اور نوآبادکار کا مکروہ چہرہ مزید سامنے آئے۔

آخر میں ایک ادنیٰ سیاسی کارکن کے طور پر ایک گذارش بلوچ نوجوانوں سے یہی کرونگا کہ وہ اس جدوجہد میں اپنا کردار ادا کریں جس قدر ہم سنجیدگی سے اپنا کردار ادا کرینگے اتنا ہی تکالیف کم ہونگی اور ہم نفسیاتی طور پر ایک متبادل بیانیہ تشکیل دینے کے قابل ہونگے لیکن اس کے لیئے انتھک جدوجہد اور سنجیدگی درکار ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔