کچھ حقائق (حصہ اول) – جوانسال بلوچ

509

کچھ حقائق

(حصہ اول)

جوانسال بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کچھ حقائق جو کہ ماضی، حال یا مستقبل میں بلوچ قومی تحریک کیلئے نقصان دہ تھے، ہیں یا ہوں گے۔ جب تک ان حقائق کو غیر جانبداری سے تلاش نہ کیا گیا تو یہی ہوگا کہ “آ بیل مجھے مار”۔ جو حقائق ستر کی دہائی میں نقصان کا باعث بنے۔ ان کو کبھی لکھا یا آنے والی نسل کو بتایا نہیں گیا۔ جس کی وجہ سے بہت سے مسائل نے جنم لیا۔ میں یہی سمجھتا ہوں کہ یہ وہی ستر کی دہائی کی تمام نہ بتائی ہوئی یانہ لکھی گئی کچھ غلطیاں آج تک قومی تحریک کا گلا دبائے ہوئے ہیں۔ ہر نظریاتی دوست جو جس محاذ پہ ہے اس نے جو بھی کمزوریاں محسوس کی ہیں، کم از کم انھیں لکھے تاکہ آپکا تجربہ آنے والوں کیلئے نصیحت ہو۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ تجربہ شدہ حقائق پڑھنے کے بعد اسکا شعوری عمل وہیں سے شروعات کرے گا اوراگر نہیں تویہ ہوگا کہ جن جذباتی یا غیر شعوری تجربات سے جو پرانے دوست گذرے، انہیں جذبات و جذباتی راہ کا مسافر آنے والی نسل بن کر مزید کمزوریاں کرتا جائے گا۔ جو گذشتہ دوستوں کے تجربات جیسا ہو گا، ہاں البتہ تھوڑا مختلف ہو سکتا ہے، مگر اکثر وہی انداز دیکھا جائے گا۔

یہ کمزوریاں نہ لکھی گئیں تو یہی ہوگا، سب اسی طرز عمل سے گذرتے ہوئے تباہی کی جانب گامزن ہوں گے اور اگر ان کمزوریوں کو لکھا گیا تو میرے خیال میں آپ نے قومی تحریک کیلئے جو دس گام آگے کیئے اور ان دس گام کے سفر کے تمام واقعات لکھے، اور انہیں ایک نئے دوست کو جب پڑھنے دیا جائے گا تو یقیناً وہ سفر گیارہویں گام سے شروع کرے گا، مگر اسکا سفر انتہائی شاطر انداز میں ہوگا کیونکہ اس نے تمام خطرات پڑھ لیئے، محسوس کیئے اور سمجھے، بے شک اس نے تجربہ نہیں کیا مگر کسی اور سے بھی اس جیسی کمزوریوں کا ذکر تو ضرور سنا ہوگا۔ لیکن میں نے بی ایس او آزاد میں بحیثیت ممبر کے یہ دیکھا کہ سینییر ممبرز کبھی گذشتہ غلطیوں کے اوراق اپنے نئے ممبرز کے سامنے نہیں کھولتے اور ان نئے ممبرز کی جو حالت رہی، وہ یہ تھا اور ہے کہ چار یا پانچ ماہ کے بعد بیزار ہوجاتے ہیں، مستعفی ہو جاتے ہیں، یا تعلق ختم کر دیتے ہیں، کیونکہ وہ اپنے مخلص جذبات کو کہیں استعمال نہیں کر پاتے۔ کیونکہ تنظیم کو ان سینئر دوستوں نے ایک ایسے پیچیدہ عمل کے طور پر جونئیرز کو بتایا ہے کہ کچھ حقائق کو جونئیرز جانتے ہوئے بھی ماننے کو تیار نہیں تھے ۔

انسان میں ایک فطری صلاحیت ہے کہ انسان وہیں جاتا ہے، جہاں وہ اپنی کمی محسوس کرتا ہے اور جب سینئرز جونئیرز کو آزاد کی گذشتہ کمزوریاں نہیں بتائیں گی، ایک تو یہ ہوگا کہ جونئیرز کریٹیکل سیاسی ورکر نہیں بنیں گے اور حالات کو نہیں سمجھیں گے۔ دوسرا اپنی طاقت کو خوف کی شکل میں دبا دیں گے۔ اور اگر ان تمام گذشتہ غلطیوں کو واضح طور پر جونیرز کو بتایا نہیں گیا تو وہ اپنی طاقت کو تنظیم کیلئے قربان نہیں کریں گے۔ یہ میں نے خود دیکھا اور محسوس کیا اور میری اپنی رائے یہی ہے کہ اپنی غلطی قبول کرنا طاقت کی نشانی ہے۔ کیونکہ یہ غلطی آپ کا انفرادی عمل ضرور ہوگا۔ مگر ہوا تو اجتماعی عمل کے دوران تو وہ ضرور اجتماعیت کی شکل اختیار کرے گا۔ لہٰذا ایک فرد کی غلطی پوری تنظیم، تحریک اور قوم کی ذہنیت کو آلودہ بناتی ہے۔ اورکچھ کمزوریاں میں نے بحثیت ایک سٹوڈنٹ تنظیم ( آزاد) میں دیکھی ہیں اور آج تک وہ ویسی ہی ہیں، تبدیلی کا نام تک نہیں لے رہے اور میرے لکھنے کا لہجہ ضرور تنقیدانہ ہے۔ کیونکہ ایسی تنقیدیں ہوئی ہیں تو میں نے جیسے محسوس کیا ویسے ہی لکھ دیا۔ قومی تحریک کے باقی تمام تنظیموں میں بھی یہی حال ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہیں ۔

سوال:

سوال ہی وہ عمل ہے جو انسان کے تخلیقی صلاحیتوں کو اعلیٰ درجے تک پہنچاتا ہے۔ سوال ہی ہے جس نے انسانی دماغ کو ترقی کے منازل طے کروائے۔ اصل میں سوال جستجو، احساس اور درد ہے، جو انسان کو دنیا کے ہر اس راستے سے آشنا کراتی ہے جو کائنات کے چھپے رازوں میں سے ایک تھا، ہے اور ہو گا۔ شاید یہی تخلیق ہے، کھنگالنا، ایجاد کرنا، دریافت کرنا سب کے سب سوال کے محتاج اور اسی میں پنہاں ہیں۔ سوال ایک طاقت ہے جس سے ہر کوئی ڈرتا ہے، جیسے خدا، ریاست، بادشاہ، استاد، ماں باپ اور ایٹم بم بھی کیونکہ سوال خطر ناک ہے کہ وجود بناتا بھی اور ختم بھی کرتا ہے۔ مثلاً خدا خود کہتاہے بس مجھ پر ایمان لاؤ مگر کیوں مت کہو اور خدا سے لیکر ہر طبقہ فکر سوال کو گستاخی کے زمرے میں سمجھتے ہیں۔

سوال کی اہمیت اور طاقت کو سمجھتے ہوئے بلوچ قومی تحریک میں اسکی سیاسی سے لیکر مسلح محاذ کہیں بھی اسے برداشت کے قابل نہیں سمجھا جاتا۔ اگر آپ نے سوال کی تو آپکو شہیدوں کے خون، شہدا کے فیملی کی لاچاری، اذیت گاہوں میں دوستوں کی کرب ناک درد، سیاسی و مسلح دوستوں کی محنت حتیٰ کہ بلوچ عورتیں جو کہ اذیت گاہوں کی سلاخوں میں درد ناک عمل سے گذر رہی ہیں۔ انہیں قسم کے جذباتی باتوں سے خاموش کرایا جاتا ہے اور یا پھر دوستوں کے احسانات سے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ قومی تحریک خود ایک سوال ہے جس کے لیئے ہزاروں لوگوں نے قربانیاں دیں، دے رہے ہیں اور دیں گے۔ یہ بھی نہیں سمجھتے کہ یہی سوال تھا جس نے قربانی کا جذبہ پیدا کیا اور تحریک ایک نہ ختم ہونی والی جنگ ہے۔

یہ دنیا تضاد کا نام ہے، جسکی وجہ سے مسلسل تبدیلی کے عمل سے گذر رہا ہے۔ اسلیئے آزادی لینا اتنا مشکل نہیں جتنا آزادی کے بعد آزادی کو بر قرار رکھنا اور دنیا کی ایک عظیم قوم بننا ایک مشکل اور کھٹن عمل ہے۔ اس تمام عمل کو جانتے ہوئے بھی سوال کو برداشت نہیں کیاجاتا اور اگر آپ نے سوال اور اختلاف کیا تو یہی سمجھو آپ کا گلا آپکے نظریاتی دوست خود دبا دیں گے تا کہ تم مر جاؤ جو موت مکمل مرنے یا پھر زندہ لاش کی شکل میں کیوں نہ ہو حالانکہ یہی کچھ ریاست بھی تو کر رہی ہے ۔ اسکا فائدہ یہ ہے کہ جو بھی، جہاں بھی اور جس نے بھی سوال کو دبایا سمجھو وہ عمل، بندہ یا خدا مقدسیت کی جانب گامزن ہے اور یہ مقدسیت سیاست میں سیاسی خودکشی ہے کیونکہ سیاست میں صرف interest مقدس ہوتے ہیں ناکہ انسان و خدا۔

مشورہ:

مشورہ ایک ایسا سیاسی اور سماجی عمل ہے جس کے معنی ہیں کہ کیا، کیوں اور کیسے کرنا چاہیئے، مگر اسکا تعلق بلاواسطہ یا بلواسطہ عمل سے ہے۔ شاید میں چیزوں کو اس جیسا نہیں سمجھ رہا جیسے کہ حالات ہیں اور ہر ایک اس عمل کو دیکھ پائے گا، جس میں وہ جانبدار ہوگا کیونکہ اس کے چشمے اسے اس جیسے حقائق دکھاتے ہیں۔ لہٰذا مشورے کی حقیت یہ ہے کہ دوسرا تیسرا ہر وہ نظریاتی دوست جو جس پیمانے سے حالات کو سمجھ رہا ہے یا سمجھتا ہے وہ انہیں بیان کرے۔ ہر راستے کی اپنی نفسیات اور ہر جنگ و عمل کے اپنے پیمانے ہوتے ہیں، جو جانبدار چشمے کی رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ ہر ایک کا روح، دماغ اور سوچنے کا پیمانہ مختلف ہے لہٰذا ہر ایک کی دیکھنے، سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت مختلف ہے۔ اسی وجہ سے اگر پالیسی بنایا اور توڑا جارہا ہوتو کم از کم مشورے سے ضرور مستفید رہا جائے۔

مشورہ ہی آپ کے خیالات کو فلٹر کرتا ہے تاکہ پالیسیاں نقصانات کی نظر نہ ہوں۔ اسے لیئے ٹاسک واضح ہوجاتا ہے اور عمل بھی آسان کیونکہ کوئی انسان عقل کل نہیں۔ میں نے اکثر اپنے سیاسی دوستوں سے یہ کہتے ہوئے سنا کہ ہمارے مسلح دوستوں کا کمال ہے کہ کیا سے کیا برداشت اور کیا سے کیا کمال عمل کرتے ہیں، مگر میں کہتا رہا اور کہتا ہوں کہ جو دوست سیاسی محاذ پر ہیں، وہ کمال کر رہا ہے کیونکہ جنگ سیاست سے شروع ہوا اور سیاسی عمل سے گذرتے ہوئے بندوق کی نوک پر یا مذاکرات کی ٹیبل پر ختم ہوگا۔ یہ سب کا سب سیاست ہے۔

سیاسی تنظیم میں ہی پراڈکشن کی فیکٹری ہے، جو سیاسی اور مسلح دونوں محاذوں کی پرورش کرتا ہے۔ اور شاید جو دوست لڑ رہے ہیں وہ جس انداز سے دشمن کے خلاف لڑ رہے ہیں، شایدان کا عمل کہیں نہ کہیں غلط ہو اور جو دوست سیاسی محاذ پر جس نگاہ سے تحریک کو دیکھ رہے ہیں شاید وہ غلط ہوں۔ کیونکہ دونوں راستوں کا مزاج ،سوچنے سمجھنے کے پیمانے اور عمل کرنے کی صلاحیت بلکل مختلف ہے، مگر متضاد نہیں کیونکہ مقصد ایک ہے۔ مگر دونوں محاذ کے دوستوں کو ایک دوسرے سے متاثر ہوئے بغیر ایک دوسرے سے ریشنلی مشورے لینا چاہیئے اور دینا چاہیئے تاکہ تحریک کو مضبوط بنایا جائے ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ کچھ دوست اسلیئے مشورہ لیتے ہیں تاکہ اختلاف رکھنے والے دوستوں کو ٹھگایا جائے کہ ہم آپ کی بات سمجھ رہے ہیں مگر عمل زیرو اور پیٹھ پیچھے چھری گھونپنا۔ یہ نہیں سمجھتے کہ ہم ایک فرد کو نہیں پوری تحریک کی پیٹھ پر چڑھ کر وار کر رہے ہیں۔ اسی وجہ سے اتنا نقصان سرکار سے نہیں پہنچا جتنا اپنے دوستوں نے اپنے دوستوں اور تنظیموں نے دیا۔

مزدوری:

مزدوری ایک ایسا عمل ہے جو کہ انسان کے مزاج کو دو طرح سے بناتی ہے۔ ایک تو اس کی عادت بن جاتی ہے، دوسرا وہ نہ چاہتے ہوئے ہر کام کیلئے جی حضور بنایا جاتا ہے۔ ان دونوں مزدوریوں میں مزدور کے مخلص جذبات کو محسوس کیئے بنا زبردستی کچھ لوگ اپنے کام کو سر انجام دلواتے ہیں اور اگر اس مزدور نے سوال کیا تو سمجھو آقا کے وجود پر سوال، اگر نہیں تب تک مزدوری۔ ایسا دنیا میں ہر کہیں ہوتا ہے، چاہے وہ سیاسی حلقہ کیوں نہ ہو۔ مزدور کی بد قسمتی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ تعلیمی ادارے یا سیاسی اداروں میں کام کرنے والے مزدور بھی عام مزدور کی طرح نہ پڑھ سکتے ہیں ،نہ تو لکھ بس مزدوری کرنا جانتے ہیں ، کیونکہ انہیں مزدوری سکھایا گیا ہے اور بار بار پریکٹس کرا کرا کے ان کی عادت بنا دی گئی ہے، تو یہ عادت ایک کردار بنے گا تب اسکا پھل ملیگا۔

اس مزدوری کو میں نے تمام بلوچ سیاسی تنظیموں میں دیکھا کہ عام سیاسی ورکر بچارا قوم کے مستقبل کو سنوارنے آیا، نہ وہ خود سنورا نہ تو سنوارا گیا، بس اسے بے بہا مزدور بنا کر ہر اس کام کیلئے استعمال کیا گیا۔ جو اسکی جان و قوم کیلئے نقصان کا باعث بنا یاپھر بچے تو بچارے سیاسی تنظیموں اور غیر سیاسی نام نہادلیڈروں سے جدا ہوگئے اور نہ ہی تنظیم کا ساکھ بچا پائے حالانکہ راز تک لوگوں کو بتانا۔ اور ان بچاروں کو تنظیموں کی طرف سے ٹارگٹ کیا گیا یا پھر ان کو اس طرح بد نام کیا گیا کہ وہ اپنی ہزار مخلصی کے باوجود اپنا باور اپنے سیاسی دوستوں کے ساتھ نہیں کرا پائے اور اپنی موت آپ مر گئے جو بس اب زندہ لاشیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان تمام بچاروں کی سیاسی تربیت سیاسی یا کریٹیکل انداز میں نہیں کیا گیا۔ بس تمام سیاسی تنظیموں کے نام نہاد لیڈرز کی خواہش یہ تھی کہ ہر لیڈر کے جتنا زیادہ مزدور ہوں اتنا زیادہ اسکو عزت ملے گی اور اتنے درجات(عہدے) بلند ہوں گے۔ جو کہ مکمل طور پر غیر سیاسی اور پاکستانی طرز سیاست کا چشمہ آب تھا۔

میں نے خود ایک سیاسی ورکر کی حیثیت سے پانچ سال تک آزاد کے عام ممبرز کو سیاسی مزدوری کرتے دیکھا، جو بچارے اس حد تک استعمال ہو رہے تھے یا ہیں یا ہوں کہ انہیں تمام سیاسی لیڈروں پر خدا کی طرح یقین کرتے دیکھا نہ کہ سیاسی نظریے پر اور ایک بہت بڑی تعداد میں ایسے ہی مزدوری کر رہے ہیں ۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ انہیں صرف لیڈر پرستی سکھایا گیا ہے نا کہ قوم پرستی۔ ان حضرات نے ان مزدوروں کی ایسی تربیت کی ہے کہ اب وہ مزدور انکے ہم نما، ہم رنگ اور ہم اسٹائل بن گئے، جیسے کہ سب تبلیغی طارق جمیل جیسے لگتے ہیں جیسے ایک باپ کے ہیں۔ یہ ایک خطرناک عمل تھا، ہے اور ہو گاکیونکہ یہ ایک ذہنی اور جسمانی غلامی ہے۔

لابی:

لابی ایک صفائی کا عمل ہے، جو کہ سیاست کیلئے لازم ہے۔ مگر لابینگ وہ سیاسی عمل ہے جو اچھے اور برے میں فرق، اچھے برے کی پالیسیوں کی پہچان، اچھے برے سرگرمیوں اور لائحہ عمل کو طے کرنے کیلئے استعما ل کیا جاتا ہے۔ یہ ایک اچھا اور برا عمل ہے، مگر استعمال کرنے والوں پر منحصر ہے کہ اس کو کس طرح، کس کے خلاف، کن وجوہات کی بنا پر استعمال میں لایا جاتا ہے۔ مگر ہمارے تمام سیاسی تنظیموں میں اس سیاسی آوزار کا انتہائی غیر مہذب انداز میں اپنے ہی دوستوں کے خلاف استعمال کیا گیا، جو کہ آج تک کسی نئی سیاسی تنظیم کو جوائن کرنے کیلئے تیار نہیں، جس سے میں خود بھی کافی متاثر ہوا۔ مثلا کچھ دوستوں کی بشیر زیب کی تصویر لگانے پر اس حد تذلیل کی گئی کہ آج وہی تذلیل کرنے والے سیاسی دوست بشیر زیب کے آرٹیکلز کو قرآن کی طرح مقدس سمجھ کر پڑھتے ہیں۔ یا پھر سلام صابر کو بلوچ سے ازبک بنا دیا گیا۔ یہ پاکستانی طرز سیاست غدار سے وفادار، وفادار سے غدار ہونے کے تمام ٹھپے ہمارے اکثر سیاسی نام نہاد لیڈرز اور انکے جی حضور مزدوروں کے پاس ہیں اور وقت آنے پر استعمال کرتے ہیں۔ میں خود اس بات کا گواہ ہوں کہ آزاد کے غیر سیاسی، امیچور سابق لیڈر بانک کریمہ کے الفاظ ہیں، جب ریحان جان نے فدائی حملہ کیا تب ایک سیاسی دوست نے بی بی ایم پہ استاد اسلم کی تصویر لگا دی تو بانک کے الفاظ تھے کہ یہ سرکاری بندہ ہے۔ تو وہ بیچارا مجھے بانک کے میسج دِکھا کر کہتا ہے اب بھی استاد سرکاری بندہ ہے تو ڈاکٹر اللہ نظر اپنے بیٹے کو کیوں قربان نہیں کرتا۔ میں نے اسے سمجھا تو دیا میرا ہزار استاد سے سیاسی اختلاف، مگر ہر ایک سیاسی و مسلح دوست کی عزت اپنی جگہ دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ مگر اس کا یقین مکمل طور پر توقعات کی بنیاد پر ختم ہو گیا۔

مجھے تمام نام نہاد سیاسی ٹھپوں کا تجربہ تھا اور میں بذات خود ان غیر سیاسی لوگوں کی ٹھپوں اور لیبلوں سے خالی نہیں۔ خیر اب یہ ٹھپے directly تو نہیں لگا سکتے مگر indirectly تمام نئے دوستوں کی نظر کر رہے ہیں تا کہ وہ بھی ان ٹھپہ بازوں کے سایے تلے ہم ایک ہیں، ہم ایک ہیں کا نعرہ بلند کریں اور یہ غیر سیاسی بے وقوف یہ تک نہیں دیکھتے کہ ہم ان دوستوں کو صرف سیاسی اختلافات کی نگاہ سے دیکھیں، نہ کہ انکے مخلص جذبات کا ریپ کریں۔ حقیقت تو یہ ہے یہ تمام دھندے ان تمام نام نہاد غیر سیاسی لوگوں کی ہیں، جنہوں نے اپنے راہ کو ہموار کرنے کیلئے مخلص دوستوں کے جذبات سے ننگے انداز میں کھیلا اور یہ تک نہیں دیکھا کہ قومی سوال کا مسئلہ جو کہ بہت ہی حساس سیاسی سوال ہے، نہ کہ مارکسزم کا مسئلہ کیونکہ قوم کی شناخت کا مسئلہ ہے۔ اگر مارکسزم کا مسئلہ ہوتا تو میں بذات خود چالبازی کا سردار ہوتا کیونکہ مارکسزم کسی کے شناخت کا مسئلہ نہیں بلکہ انسانی ضروریات و احساسات کا مسئلہ ہے۔ لہٰذا بلوچ قومی مسئلہ بنیادی ضروریات کا مسئلہ نہیں بلکہ شناخت کا مسئلہ ہے۔ مگر ان نام نہاد لوگوں نے یہ تک نہیں دیکھا کہ ہر سیاسی نظریے کی اپنی نوعیت ہوتی ہے۔ انہیں اس بات کا علم تھا، ہے کہ لابینگ کیسے، کیوں، کس پر اور کہاں کیا جائے پر اپنے آپ کو لیڈر بھی تو بنوانا ہے۔

جی حضوری:

جی حضوری ایک بنایا گیا عمل ہے کہ کسی انسان کی تمام پیداواری صلاحیتوں کو ختم کر کے اسے ایک ہنر مند مزدور بنایا جاتا ہے، جو کہ میں نے اپنے سیاسی زندگی میں دیکھا اور دیکھ رہا ہوں۔ میں نے کچھ ایسے دوستوں کو دیکھا جو صرف بیانات ٹائپ کرنے کے ماہر تھے، مگر دنیا کے باقی تما م سیاسی تبدیلیوں سے بے بہر اور ان تمام جی حضوریوں کے دھندے آزاد میں 2013 سے باقاعدہ طور پر شروعات کیا گیا، جو آج ایک ایسی کابینہ کنٹرول کر رہی ہے جو خود اسی ماحول میں پلے بڑھے اور یہی کابینہ، سنٹرل کابینہ، مرکزی کابینہ اور تمام زونوں کے دوستوں کو کنٹرول کیئے ہوئے ہے۔ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ ان دوستوں کو جو بھی کام کروانا ہو وہ کابینہ سنٹرل کمیٹی کو اور سنٹرل کمیٹی مرکزی کابینہ کو بتاتے ہیں۔ پھر مرکزی کابینہ کے غیر سیاسی مزدور چھوٹے غیر سیاسی مزدوروں کو بتاتے ہیں تب وہ سرگر م ہوتے ہیں اور دوسرا اگر زونل ممبرزاورکابینہ کے ممبرز کو گائیڈ نہ کیا جائے تو تب یہ اپنے ذہانت سے کچھ نہ کر سکتے ہیں اور نہ ہی ان میں کچھ کرنے کی صلاحیت ہے۔ بس ٹوٹلی کنٹرولڈ گروپس ہیں جو نہ کہ تین میں ہیں نہ تیرا میں۔

سنٹرل کمیٹی اور مرکزی کابینہ کے غیر تجربہ گروہ کی تعلیمی قابلیت انٹرمیڈیٹ ہے اور انکی تمام سیاسی قابلیت کابینہ کی جی حضوری ہے اور اس حد تک جذباتی ہیں کہ بس ان سے اختلاف رکھنا یا سوال کرنا شیر کے منہ میں ہاتھ ڈالنے سے بھی خطرناک ہے کیونکہ تھپڑ بازی یہ نہیں کر سکتے، عورتوں جیسی باتوں سے سامنے والے کا منہ کالا کر دیتے ہیں۔ چوتھا ان حضرات کا نہ تو سیاسی کام کا تجربہ ہے نہ کہ اسٹڈی اور اسٹڈی بھی وہی جو روایتی کتابوں کی نظر ہے حالانکہ کچھ کتابیں کتاب کے پیمانے میں بھی نہیں آتے مگر بلوچ سیاسی ورکرز نے انہیں سیاسی نظریے کا اول و آخر بنا دیا، جیسے کہ تبلیغیوں کا فضائل اعمال اور آزاد کے مزدوروں کو سبط حسن ،علی عباس جلالپوری اور ڈاکٹر مبارک علی کی کتابیں۔ حالانکہ سبط حسن نے مارکسزم اور تاریخ کے ساتھ ریپ کیا ہے۔ ان نا بالغ سیاسی حضرات سے ناپائد سیاسی حکمت عملی کی توقع کی جاتی ہے کیونکہ جی حضوری کی بیماری تخلیقی صلاحیتوں کو ایسے چاٹتی ہے جیسے دیمک لکڑی کو اور یہ بیماری کابینہ سے ممبرز اور ممبرز سے کابینہ تک کو جاتی ہے۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔