سیاسی بیگانگی کے سبب نوجوان سیاسی و مزاحمتی جدوجہد سے لاعلم ہیں – ڈاکٹر عبدالمالک

162

نیشنل پارٹی کے مرکزی صدر و سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ سیاست شعوری علم ہے اور تمام علوم مل کر سیاست کی تخلیق کرتے ہیں۔ تاریخ میں بلوچ اکابرین نے سامراجیت و طبقاتی جبر کے خلاف طویل سیاسی جدوجہد کی۔ اس جدوجہد میں سنجیدگی، دوراندیشی، مضبوط کمنٹمنٹ اور نظریہ اولین حیثیت رکھتے تھے۔ بلوچ اکابرین کی ذانت و سیاسی شعور خطے میں نمایاں تھا۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے  پارٹی کے مرکزی سیکریٹریٹ میں منعقدہ علمی نشست کے دوران “سیاسی تاریخ “پر لیکچر دیتے ہوئے کیا۔

ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ بلوچ نوجوانوں کو اپنی سیاسی جدودجہد کی تاریخ سے آگاہی ہونا چاہیئے کیونکہ بلوچ سیاسی اکابرین نے خطے میں سامراج، طبقاتی ناانصافی، جاگیرداری و سرداری نظام کے خلاف جدوجہد کی۔

بلوچ قیادت مسلمہ یقین پر قائم تھی کہ ترقی پسند اور سیاسی شعور سے آراستہ معاشرہ قوموں کی حقیقی تعمیر و ترقی میں کردار ادا کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1920کی دہائی میں میر عبدالعزیز کرد نے سامراجیت و جاگیرداری و سرداری نظام کے خلاف انجمنِ اتحادِ بلوچاں کی بنیاد رکھی۔ اور اس کے بعد میر یوسف عزیز مگسی بھی ان کے اس اتحاد کے سرگرم رہنما بن کر ابھرے۔

1932 کو آل انڈیا بلوچ کانفرنس کا انعقادکیا جس کا مقصد بلوچ سماج سمیت خطے کے دیگر قوموں کے بھی اقتصادی، تعلیمی و سیاسی حالت کو بہتر بنانے کے لئے لائحہ عمل تشکیل دینا تھا۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے مزید کہا کہ آج سیاسی بیگانگی کی وجہ سے سیاسی اکابرین کی عملی سیاسی مزاحمتی جدوجہد سے نوجوان لاعلم ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تاریخ میں محمد حسین عنقا، محمد امین کھوسہ، عبدالکریم شورش، فیض محمد دہوار، عبدالرحیم دہوار، میر یوسف عزیز مگسی، گل خان نصیر، شیر و مری، آغا عبدالکریم، بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو، نواب خیر بخش مری، نواب اکبر بگٹی، فدا شہید، مولا بخش دشتی، حبیب جالب، ایوب جتک، رازق بگٹی سمیت دیگر بلوچ سیاسی قیادت نے طویل، کٹھن اور مصائب ذدہ حالات میں جدوجہد کی۔

انہوں نے کہا کہ ملک کی 60 کی دہائی میں تمام محکوم قوموں نے سیاسی پلیٹ فارم کو مشترک کرتے ہوئے نیشنل عوامی پارٹی کی بنیاد رکھی جس میں بلوچ، پشتون، سندھی سرائیکی سیاسی قیادت یکجا ہو کر ملک میں حقیقی جمہوریت،ون یونٹ کے خاتمے، بالادست طبقے کی طبقاتی جبر ناانصافی کے خلاف جدوجہد شروع کی جس کو عوامی حلقوں میں بھرپور پذیرائی ملی لیکن بالادست حکمرانوں نے نیپ کی منتخب حکومت کو غیر جمہوری انداز سے ختم کیا اور نیپ کی قیادت کوحیدرآباد سازش کیس کے ذریعے پابندِ سلاسل کیا۔

انہوں نے کہا کہ بی ایس او نے خطے میں باشعور و منظم تنظیم کی بدولت الگ حیثیت قائم کی۔ مظبوط تنظیم اور عوامی حمایت بی ایس او کی شعور سیاست کا مرکز تھا۔ بی ایس او نے قومی قیادت کے ساتھ مل کر بلوچستان میں انقلابی سیاسی جدوجہد کی۔ تعلیمی نشست میں نیشنل پارٹی کے قائد ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے لیکچر کے بعد سوال و جوابات کا سلسلہ بھی ہوا جس میں نواجوانوں نے لیکچر کی مناسبت و سیاسی تاریخ کے متعلق سوالات کیئے اور اپنے سیاسی علم میں اضافہ کیا۔