کبھی اپنے اندر بھی جھانکیں – عبدالواجد بلوچ

688

کبھی اپنے اندر بھی جھانکیں

تحریر: عبدالواجد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کامیاب انسان وہی ہیں، جنہیں اپنے اندر جھانکنے کا گُر آتا ہو کیونکہ اس عمل سے انسانی وجود کے اندر مثبت تبدیلیاں رونما ہونے کا قوی امکان ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کہ عکس کے اندر جادوئی طاقت ہوتی ہے، یہ طاقت کسی کو بھی احساسِ فخر میں مبتلا کرسکتی ہے یا ندامت کی گہرائیوں میں دھکیل سکتی ہے، ضمیر کی آواز اور اس میں چھپی عکس ہمارے ساتھ کیا کھیل کھیلتا ہے اس کی وضاحت شاید دو اقوال سے ممکن ہو سکے پہلا قول ہے’’میں آئینے میں تو اتنا خوبصورت دکھتا ہوں،یہ تصویر میں مجھے کیا ہو جاتا ہے؟‘‘ دوسرا قول یہ ہے کہ ’’کیا آئینے کی تصویر،آئینہ نہیں ہوسکتی؟‘‘۔ پہلے قول سے تو نرگسیت صاف جھلکتی ہے لیکن دوسرا قول قدرے پیچیدہ ہے ہر فرد میں نرگسیت کی کم یا زیادہ ایک مقدار ضرور موجود ہوتی ہے لیکن بعض دفعہ یہ اس سطح کو چھونے لگتی ہے جہاں تصویر اور آئینے کا فرق ہی ختم ہونے لگتا ہے اور ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ بھلا تصویر بھی کبھی آئینہ ہوتی ہے؟

یہ کوئی پیچیدہ یا بہت ہی فلسفیانہ بیانیہ نہیں ہے، اگر آپ بلوچ قومی سیاست(قومی سیاست سے مراد آزادی پسند حلقوں کی سیاست) مباحث(بحث تو سرے سے ہے نہیں رویہ کہہ لیں تو مناسب ہوگا ) دیکھتے ہیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ ہم کس معیار پر کھڑے ہیں، خواہ اس سیاست کا محور مرکزی دھارے کا ہو، متوازی یا یا نچلی سطح کے کارکنان تک، ہر جگہ مایوسیت کا راج تو ہے ہی لیکن ماتم اس بات کا ہے رویوں کی تبدیلی دور دور تک نظر نہیں آتے، بحث تصورِ برابری پر ہو، یا ’’پیچیدہ مسئلوں پر ‘‘ دلیل و منطق کے وجود سے عاری مباحث صرف مثالوں(تصوراتی تصور، جن کا عکس نہیں بن سکتا) کے گرد گھومتی ہے. خوشنما نعروں کے گرداب میں ہم خوش ہورہے ہیں کہ ایک طاقتور و عیار دشمن سے ہم بازی جیت رہے ہیں. افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ جس مقصد کو ہم نے اپنا شعار بنایا ہے، اس مقصد کے مفہوم کو سمجھنے سے قاصر ہمارے نام نہاد لیڈر اس بات پر تکیہ کرچکے ہیں کہ منافقت، چمچہ گری اور چاپلوسی کے چادر پر چند افراد کی معطر کردہ قطرے انہیں وقتی طور پر مسحور کررہے ہیں، یہی ان کی کامیابی ہے۔

گو کہ قومی مقصد، منزل، محورِ جدوجہد ایک ہے لیکن ہمارے صاحبانِ اقتدار کے ایک دوسرے پر دلائل،انداز گفتگو اور زہر بھرے نشتر ان کی جو تصویر بناتے ہیں وہ از خود ماننے سے انکار کردیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ قصور ان مخلص کارکنان کا ہے جو انہیں اصل آئینہ دکھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ورنہ ان کے اپنے آئینے میں تو وہ بہت خوب صورت نظر آتے ہیں۔ یہ عمل بڑے پیمانے پر سیاسی سمیت سماجی و ادبی سطح پر بھی ایسے ہی رونماہورہا ہے، آزادی پسند تمام ادارے لیڈران سمیت ایسی ہی نرگسیت کا شکار ہیں جو کہ ’’شدید ترین اجتماعی نرگسیت کی بیماری‘‘ کی نشاندہی کرتا ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ پولٹیکل سائینس ایسی صورتحال کو بیان کرنے کے لیے اصطلاحات سے انکار کرتا ہے اگر’’سیاسی و سماجی ابتری‘‘( Political and Social Disorder) اور عدم برداشت کے موجودہ فوبیا کو باہم ملا کر دیکھا جائے تو ہمارے سیاسی رویوں کی قدرے مناسب تشخیص ہوسکتی ہے’’موجودہ سیاسی رویے ‘‘ہمارے سیاست کی پیچیدگیوں کی وہ حالت ہے، جو مستقبل میں تباہی سمیت منفی حرکات کے وقوع پذیر ہونے کی وجہ بنتی نظر آرہی ہے ‘‘جبکہ عدم برداشت کا فوبیا ایک شدید ترین خوف ہے جودوسروں کے آپ کے درمیان قوی خلا پیدا کررہا ہے اور آپ کی شخصیت ایک ایسی شرمندگی کی کیفیت میں رہتا ہے، جس کا اظہار رد عمل یا غصے کی صورت میں نظر آتا ہے، سیاسی مفکرین ایسی صورتحال کو سیاسی زوال(Political Decay) سے بھی تعبیر کرتے ہیں.

یہ ایسی کیفیت ہے جہاں لوگ عمومی گروہ بندیوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور ہر گروہ دوسرے کو اجنبی(Stranger)پکارتا ہے اور یہ اجنبی آپس میں رابطہ انتہائی ضرورت کے وقت کرتے بھی ہیں لیکن یہ عارضی رابطہ آپ کے مجموعی قومی تحریک کے لئے زرا برابر بھی سود مند نہیں ہوسکتا کیونکہ Long Terms Struggle وقتی و عارضی رویوں کا کسی بھی طرح متحمل نہیں ہوسکتا.

کیا عارضی رویوں کے اس عمل یعنی اتحاد و یکجہتی جن کا لب لباب دوسرے کو نیچا دکھانا ہوتا ہے، آپ کی اس رواں جھد پر مثبت اثر ڈالتا ہے؟ کیا آپکی شدت پسندانہ رویہ بمقابلہ آپ کے سیکولر ازم کے دعوے کو ملیامیٹ نہیں کررہا؟ کیا آپ کی عامرانہ سوچ بمقابلہ آپ کے لبرل،جمہوریت پسند ہونے والے رویے کو سبوتاژ نہیں کررہا؟ قابلیت، اہلیت کو پسِ پشت ڈال کر اپنے حامی، چاپلوس و چمچہ گیریت کے شہنشاہوں کے ذریعے اور مخلص و ایماندار کارکنان کے سوالات کے پیش نظر انہیں غدار و تحریک دشمن گرداننے کے عمل میں تحریک کی زوال کی تصویر نظر نہیں آرہی؟ نفسیاتی اصطلاح میں ایسی صورتحال کو ذہنی دباؤ سے پیدا ہونے والی عملی بے ترتیبی کا نام دیا جاتا ہے جبکہ لانگ ٹرم جدوجہد وہ بھی ایک دشمن کے خلاف نہیں بلکہ بلوچستان میں موجود International Games کے پیش نظر آپ کی ناکامی اور اس میں چھپی وہ مقام جس سے آپ کا وجود مٹ جانے کا خطرہ ظاہر ہو اس ضمن میں تاریخی انصاف کا تقاضا یہی ہوتا ہے کہ اپنے پیچیدگیوں پر نظر رکھیں، وقوع پذیر ہونے والی کوتاہیوں کو دیکھیں، خوشنما نعروں پر تکیہ کرنا چھوڑ دیں اور رضاکارانہ طور پر اس عمل کو پائے تکمیل تک پہنچائیں، جس سے تمہارے اندر یہ ہمت پیدا ہو کہ جی میں غلط ہوں اور اب میں اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کرنا چاہتا ہوں.تب آپ ایک مثبت ٹریک پر آجائیں گے جس سے کامیابی خود تمہارے قدم چومے گی۔

دی بلوچستان پوسٹ: اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔