زبان کا ارتقاء اور پس منظر ۔ سمیر جیئندبلوچ

1274

زبان کا ارتقاء اور پس منظر

تحریر۔ سمیر جیئندبلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

زبان مقصود بالذات نہیں ابلاغ کا وسیلہ ہے۔ تاہم اس وسیلے کو ظاہری اور معنوی اعتبار سے بڑی اہمیت حاصل ہے۔ کوئی قوم جن حوالوں سے پہچانی جاتی ہے، ان میں زبان بھی شامل ہے، یہ ماضی الضمیر کے اظہار کا زریعہ بھی ہے اور ایسا آلہ بھی جسکے توسط سے سوچ الفاظ کے سانچے میں ڈھلتی ہیں۔ الفاظ باالخصوص تلمیحات و استعارات کا مقصدقوم کے جغرافیہ ہی سے نہیں تاریخ کے ساتھ بھی گہرارتعلق ہوتاہے۔ مثال کے طورپر کسی قوم کو اسکے ماضی سے منقطع کرنے کا آسان طریقہ ہوتاہے کہ اس سے اسکی زبان چھین لی جائے اور اس پر ایک غیر زبان مسلط کردی جائے، اسی طرح سامراجی طاقتیں جن ملکوں پر بھی قابض ہوئیں، وہاں اپنی زبان رائج کی تاکہ وہ قوم اپنے ماضی سے منقطع ہوجائیں اور سوچ اور ماضی الضمیر کے اظہار کا زریعہ بدل جانے سے اس کا ضمیر بھی بدل جائے۔

زبان: ماہرین کا کہنا ہے کہ زبان جہاں ابلاغ کا اہم ترین ذریعہ ہے وہاں یہ ابلاغ کا ناقص ترین ذریعہ بھی ہے کیونکہ زبان کے زریعے بالکل صحیح صحیح ابلاغ کبھی نہیں ہوسکتا۔

دراصل زبان کے ذریعے ابلاغ یعنی ترسیل مفاہیم کے عمل کو ہم اسی طرح آسان سمجھتے ہیں، جیسے کہ گویا مفہوم کسی برتن مین پڑی ہوئی کوئی مائع ہو، جسے ایک برتن سے دوسرے برتن (یعنی ایک ذہن سے دوسرے ذہن ) میں منتقل کردیا جاتاہے ۔حالانکہ ابلاغ کا عمل ایسا سادہ اور آسان ہرگز نہیں ہے۔ ابلاغ کا عمل بہت پیچیدہ عمل ہے جس کی راہ میں انسان بار بار ٹھوکر کھاسکتاہے۔

ماہرین ابلاغ اور عام لوگوں میں اس سلسلے میں بڑا فرق یہی ہے کہ ابلاغ کا ایک ماہر جو بات بھی کہتاہے وہ اس بات کی اثر پذیری اور دوسروں کی طرف سے اسے سمجھے جانے کے متعلق بات کرتاہے اور بات کہنے کے بعد دوسروں کے ردعمل کو دیکھ کر اس ات کا تعین کرنے کی کوشش بھی کرتاہے کہ اس کا پیغام کس حد تک کامیاب رہا اور اسے واضح کرنے کیلئے مزید کہنے یا کرنے کی ضرورت ہے۔ اور اس سے آگے جو ذمہ داری ہے وہ دوسروں کی ہے۔ عام آدمی اپنی بات کے سمجھے جانے یانہ سمجھے جانے کی بھی پرواہ نہیں کرتا۔ یہی عام آدمی کی غلطی ہے کہ وہ اپنے اس پیغام کے سلسلے میں بھی مثبت ردعمل کی توقع رکھتاہے جوکہ مختلف وجوہ کی بناء پر دوسروں تک صحیح انداز میں پہنچا بھی نہیں ہوتا۔

زبان کا ارتقاء: زبان جس ترقی یافتہ صورت میں آج ہمارے سامنے موجود ہے، ہمیشہ اسی صورت میں نہیں تھی بلکہ اس نے ترقی و ارتقاء کی بہت سی منازل طے کی ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق انسان لگ بھگ دس لاکھ سال قبل زبان سیکھ چکاتھا، مثال کے طورپرابتداء میں انسان نے آ۔۔۔آ۔۔۔جا۔۔کھاکھا،جیسی طاق آوازوں سے کام چلایا۔ اول اول معاشرے میں بھوک پیاس کے اظہار، مختلف جانی پہچانی اشیاء کو ظاہر کرنے، اور خوشی اور اونچ نیچ کے اظہار کیلئے آوازین نکالی جاتی رہیں۔ ان سے مختلف مفاہیم وابستہ ہوئے اور پھر آہستہ آہستہ انسان مرکب آوازوں سے آشناء ہوتا چلاگیا، اور آوازوں سے مرکب مفاہیم بھی وابستہ کئے اور سمجھے جانے لگے۔

تاہم زبان کی تشکیل اور ارتقاء کا انحصار فکر انسانی کے ارتقاء سے وابستہ ہے۔ زبان کی ترقی کے ساتھ فکر انسانی کو جلا ملی اور فکر انسانی کی ترقی زبان کے عروج و ترقی کا باعث بنی۔ زبان انسان نے کس طرھ سیکھی اس عمل کو سمجھنے کیلئے ایک شخس کے بچپن سے جوانی تک الفاظ و فقرات پر دسترس حاصل کرنے کا عمل ہمیں بڑی حد تک مدد دیتا ہے۔

مثال کے طورپر انسان کے زبان کا استعمال شروع کرنے کے صحیح زمانے اور اندازکے متعلق درست اندازے سے قائم کرنے مین وقت یہ کہے کہ جب ایک بچہ زبان سیکھتاہے تو اس کے سامنے معاشرے کا ایک ترقی یافتہ لسانی نظام اور ماحول موجود ہوتاہے جبکہ ابتدائی انسانی زبان یکھتے وقت سب کچھ از خودسیکھنا پڑا۔ اس کے سامنے اپنے بزرگوں کا قائم کردہ کسی کا لسانی ماحول موجود نہیں تھا۔

علاوہ ازین بعض قدیم معاشروں مین لوگ زبان کو خدائی عطیہ یا اس کی طرف سے بھیجی ہوئی چیز سمجھتے تھے، جس کی واضح مثال سنسکرت کو ریو بھاشا کہا جاتاتھا۔

زبان کے آغازسے متعلق ایک اور خیال یہ ہے کہ مختلف مظاہر فطرت نے انسان کے دل میں مختلف احساسات پیدا کئے اور فطری طورپر مختلف آوازین نکالنی شروع کیں۔ مثلاً ہائے‘‘ تف‘‘ اوہو‘‘ ،آ۔۔۔ہا ۔۔۔‘‘ وغیرہ ۔ایسی فجائیہ آوازیں ہی بعد میں باقاعدہ زبان کی صورت اختیار کر گئیں۔

ایک خیال کے مطابق زمانہ قدیم کے لوگ کوئی کھٹن کام کرتے وقت ’’ ہاؤہو۔۔۔‘‘ہائی ہو۔۔۔’’یا‘‘اے۔۔۔ہے۔۔۔‘‘ وغیرہ کی جو آوازیں نکالتے تھے، انہی کی ترقی سے زبان منضبط ہوئی۔

الغرض ماحول اور جغرافیہ ،قوموں کے سماجی اور سیاسی اثرات اور قوموں کے باہمی میل جول نے زبان کو متاثر کیا ۔ مختلف زبانوں میں معاشرے اور ماحول کے فرق کے ساتھ ہی مختلف الفاظ شامل ہوتے رہے اور افراد کے مخصوص مزاج کے مطابق ہی زبان کا مزاج ڈھلتا رہا۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔