بھائی کی بازیابی تک وزیر اعلی ہاوس کے سامنے دھرنے پر بیٹھونگی۔ سیما بلوچ

222

اگر بھائی بازیاب نہیں ہوتا تو ذمہ داری حکومت پر عائد ہوگی۔ ہمشیرہ شبیر بلوچ کا کوئٹہ میں پریس کانفرنس

بلوچ لاپتہ افراد کے کیمپ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سیما بلوچ کا کہنا تھا کہ قید خانوں میں دو سال ایک مہینے اور چھ دن سے قید ہمارے خاندان کا چشم چراغ شبیر بلوچ کس جرم میں لاپتہ کیا گیا ہے یہ شاید گمشدگی میں ملوث سیکورٹی اداروں کے اہلکاروں کو بھی نہیں معلوم کہ لاپتہ ہونے والا ایک مجرم نہیں بلکہ ایک طالب علم ہے۔ان 766دنوں میں ایک ایسے شخص کو حبس بے جاء میں رکھ کر تشدد کرنا جس نے کوئی جرم ہی نہ کیا ہواور لاپتہ کرنے والوں کے پاس مذکورہ شخص کے خلاف کوئی ثبوت ہی موجود نہیں۔شبیر بلوچ کی گمشدگی سے ہمارا خاندان کس کرب سے گزر رہا ہے وہ آپ دو سالوں سے دیکھ رہے ہیں۔کبھی کراچی،کبھی کوئٹہ اور کبھی ملک کے دیگر شہروں میں آپ کے سامنے اپنے خاندان کی درد و تکالیف کی داستان بیان کی،کورٹس،انسانی حقوق کے اداروں کے سامنے اپنے بھائی کی گمشدگی کا کیس رکھا لیکن سوائے مایوسی کے کچھ نہیں ملا۔اپنے اہلخانہ کے چشم و چراغ کے انتظار میں اہلخانہ ذہنی طور پر بالکل مفلوج ہوچکا ہے۔وہ ماں اپنی زندگی کس حالت میں بسر کررہی ہیں جس کا لخت جگر دو سالوں سے گھر نہیں لوٹا، وہ بہن جس کی امیدوں کا محور اس کا بھائی تھا اور وہ اہلیہ اپنی بقایا زندگی کس حالت میں گزارے گی،شاید یہاں انسانیت کا جنازہ اٹھنے کے بعد کسی کو اس بات کا احساس ہی نہیں کہ ایک بہن اور ماں کا درد کیا ہوتا ہے۔

سیما بلوچ کا کہنا تھا کہ میں اپنی بھابھی کے ساتھ گزشتہ دو سالوں سے اپنے بھائی کی بازیابی کے لئے پرامن ذرائعوں کو استعمال میں لاتے ہوئے احتجاج کررہی ہوں۔لیکن ان احتجاجوں کے دوران وفاقی حکومت نے ہمیں نظرانداز کرکے کسی بھی قسم کا کوئی رسپارنس نہیں دیا جو ایک سوالیہ نشان ہے کہ ریاست کے ذمہ دار ادارے انسانی حقوق کی پامالیوں پر خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔

ہمشیرہ شبیر بلوچ کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں نے بلوچستان کے ہرطبقہ فکر کو ایک خوف میں مبتلا کر رکھا ہے۔اور اسی خوف کی وجہ سے بلوچستان کے جبری گمشدگیوں سے متاثر خاندان کی آواز ہمیشہ دب کر رہ گئی اور کوئی بھی انسان لاپتہ افراد کے مسئلے پر بات کرنے کو اپنی زندگی کے لئے خطرناک سمجھتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں پوچھنا چاہتی ہو ان سیاسی پارٹیوں سے جو انسانی حقوق کا راگ الاپتے رہتے ہیں لیکن انہیں ایک بہن کی فریاد اور ایک بیوی کے آنسو کیوں نظر نہیں آتے۔ کیوں وہ شبیر بلوچ اور دیگر لاپتہ بلوچ افراد کی صیح سلامت بازیابی کے لئے عملی اقدامات کے لئے حکومتی اداروں کو مجبور نہیں کرتے۔

سیما بلوچ کا کہنا تھا کہ عالمی انسانی قوانین کے مطابق اگر کوئی شخص کسی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہے تو اسے عدالتوں کے روبرو حاضر کرکے قانونی تقاضوں کے مطابق سزا دی جائے لیکن یہاں اس قانون کی مسلسل خلاف ورزی کی جارہی ہیں۔پاکستان کے آئین کے مطابق ریاست اپنے شہریوں کے تحفظ کا ذمہ دار ہے لیکن یہاں قومی سلامتی کے ذمہ دار ادارے خود شہریوں کو لاپتہ کرنے میں ملوث ہیں۔کہاں ہے وہ جو قانون کی خلاف ورزی پر گھنٹوں اسمبلیوں میں تقریریں کرتے رہتے ہیں لیکن ان کو بلوچستان کے ماؤں اور بہنوں کے آنسو نظر نہیں آتے۔ان بے حس لوگوں کو دیکھ کر ایسے محسوس ہوتا ہے کہ انسانیت یونہی سسکیاں لیکر دم توڑ دی گی لیکن انکے مردہ ضمیر نہیں جاگیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ گزشستہ ہفتے پریس کانفرنس کے ذریعے ہم نے کوئٹہ میں علامتی بھوک ہڑتال میں بیٹھنے کا فیصلہ اس امید پر کیا کہ صحافی حضرات ہماری آواز کو حکام بالا تک پہنچائیں گے لیکن آواز پہنچانا دور کی بات کسی صحافی نے کیمپ میں آنے تک کی زحمت نہیں کی جو صحافتی اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔اس لئے ہم نے احتجاجی مظاہرے کی مدد سے اپنی آواز اعلی حکام تک پہنچانے کی جدوجہد کی۔ لیکن سول انتظامیہ کی اس یقین دہانی پر کہ وزیر اعلی بلوچستان جام کمال صاحب خود کیمپ میں آکر آپکے بھائی کی بازیابی کے بارے میں جمعہ کو آکر بات کریں گے۔اس یقین دہانی پر ہم نے اپنے احتجاج کے سلسلے کو روک دیا مگر 24گھنٹے گزرنے کے بعد ایک بے اختیار ایس ایچ او کو ہمارے پاس بھیجا گیا ہے۔پھر ہمیں آج کے دن کا کہا کہ وزیراعلی آج آپ سے ملنے آئے گا،آج جب میں دوبارہ کیمپ پہنچی تو پھر وہی کل والا ڈرامہ۔

سیما بلوچ کا کہنا تھا کہ میں آج ایک بار پھر آپ کے توسط سے اعلی حکام سے مطالبہ کرتی ہو کہ میرے بھائی کو منظر عام پر لا کر اسکے خلاف قانونی کاروائی کی جائے۔اگر اعلی حکام ہمارے مطالبات نہیں سنتے تو عالمی اور ملکی قوانین ہمیں یہ حق دیتے ہیں کہ ہم اپنے احتجاج کو مزید وسعت دیں۔

ہمشیرہ شبیر بلوچ کا کہنا تھا کہ ہم چیف جسٹس آف پاکستان سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ وہ ہمارے بھائی کی بازیابی کے لئے از خود نوٹس لیکر کاروائی کریں۔اگر میرا بھائی منظر عام پر نہیں آیا تو اسکی پوری ذمہ داری وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت پر عائد ہوگی۔

سیما بلوچ نے اپنے بیان کےاخر میں کہا کہ میں اعلی حکام کو بتا دینا چاہتی ہو کہ ہمارا احتجاج کا یہ سلسلہ ہمارے بھائی کے منظر عام تک نہ آنے تک جاری رہے گا۔ میں ایک بار پھر وزیر اعلی ہاؤس کے سامنے دھرنے پر بیٹھوں گی اور اس وقت تک بیٹھی رہونگی جب تک میرا بھائی منظر عام پر نہیں آتا۔