یہی میرا ایڈریس ہے – زبیر بلوچ

340

یہی میرا ایڈریس ہے

زبیر بلوچ
سابق سیکریٹری جنرل بی ایس او پجار

دی بلوچستان پوسٹ 

رات کے پچھلی پہر کی فون کال سے گھبرا گیا کیونکہ بلوچ سماج میں اس وقت کال ہمیشہ کوئی نہ کوئی ناگہانی آفت کی روداد سناتی ہے. ہمت باندھ کر فون ریسو کرلیا۔ دوسری طرف کوئی موصوف چیخ چیخ کر بے تحاشا ماں بہن کی ننگی ننگی گالیوں کے ساتھ مجھے مارنے کی دھمکیاں دے رہا تھا. میں نے بڑے صبر اور اطمینان سے موصوف کو سمجھانے کی کوشش کی, کہ “جناب آپ کون ہیں اور رات کے اس پہر بلا وجہ کیوں مارنے کی دھمکی اور میری ستر سالہ ماں اور بہنوں کو گالیاں بک رہے ہیں؟” تو اس صاحب نے کہا کہ تم مجھے نہیں جانتے؟ میں نیشنل پارٹی کا مرکزی عہدہ دار فدا بلوچ ہوں, تو مجھے پتہ چلا کہ تربت بلدیہ میں صاحب کا کوئی ذمہ دار عہدہ بھی ہے. اس نے مزید اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ “تم بہت اچھل رہے ہو سوشل میڈیا میں ہمارے خلاف پروپگنڈے کرتے ہو، جو مجھے بالکل پسند نہیں ہے, میں ایسی بےہودہ باتوں کو پسند نہیں کرتا جو تم روز واٹس ایپ گروپ میں کرتے ہو, تم ہوتے کون ہو جو میرے ترقیاتی کاموں پر تنقید کرتے ہو. تم ابھی کدھر ہو اپنا اڈریس بتاؤ میں صبح آکر تم کو دیکھتا ہوں.” فدا نامی موصوف جو کہ نیشنل پارٹی کا مرکزی مالیاتی عہدے کے ساتھ ساتھ تربت بلدیہ کا ذمہ دار تھا. اس کا غرور اور تکبر سر چڑھ کر بول رہا تھا وہ کچھ لحموں کے لیے خود کو رومن امپائر کا کوئی شہنشاہ اور مجھے رومن غلام سمجھ رہا تھا۔

موصوف کی غیض و غضب اور ننگی گالیاں اور مارنے کی دھمکی میرے روح اور بدن کو چیرتی ہوئے میرے اندر داخل ہو رہیں تھیں, میں بدستور مسکرا کر موصوف کو سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا, صاحب میں نے تعمیری بات کی, جو آپ کے لیئے اور ہمارے معاشرے کے لیے ایک تعمیری بحث تھی. ایک صحت مند اور سنجیدہ گفتگو تھی. آپ بھی اپنے کاموں کے دفاع میں کچھ لکھ, بول سکتے تھے بجائے نصف شب فون کرکے میری ماں بہنوں کو گالیاں بکنے اور مارنے کی دھمکی دینے کے۔

موصوف بار بار مجھے ایڈریس دینے کا بول رہا تھا, خیر اتنی گالیاں اور دھمکی کھانے کے بعد میں نے فون کال کاٹ دیا۔ اور سگریٹ سلگا کرآسمان کو گھورنے لگا جس کی بوڑھی جھریوں میں مجھے یوں محسوس ہوا کوئی غضبناک دیوتا صدیوں کا غم و غصہ لیے اونگھ رہا ہے اور میں دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ یہ موصوف جو نصف شب مجھے فون کرکے مارنے کی دھمکی اور گالیاں بک رہا تھا, محض اس لیے کہ میں نے ایک سنجیدہ گفتگو کی تھی. صرف ایک مکالمہ کرنے پر مجھے مارنے پر اتر آیا ہے, اس میں ایک بلوچ ماں اور بلوچ بہن کا کیا قصور ؟.

میں لکھتا ہوں بولتا ہوں گفتگو اور بحث مباحثہ کرتا ہوں ان سے میری ماں کا کوئی تعلق نہیں نہ کہ میری بہن کو کوئی واسطہ ہے۔ تو پھر یہ موصوف جو کہ نیشنل پارٹی کا مرکزی مالیاتی عہدہ دار اور تربت بلدیہ کا ذمہ دار ہے, گالیوں کے ساتھ ساتھ مارنے کی دھمکی کیوں دے رہا تھا؟

اب رات اپنے آخری پہر کو پہنچ چکی تھی. دور اذان مرغ کی آواز آرہی تھی اور میں اپنا کوئی آسان ایڈریس سوچ رہا تھا کہ سورج ڈھلنے سے پہلے موصوف نے آنے کا بولا تھا, کوئی ایسا ایڈریس ہو جس سے موصوف کو مجھے ڈھونڈنے میں کوئی پریشانی نہ ہو اور وہ سیدھا آکر میرا گلا دبا دے, میری آنکھیں نوچ لے جو ہر برائی کو میرے شعور تک پہنچاتی ہیں, میری انگلیاں جس نے موصوف کی نام نہاد سلطنت کے خلاف قلم اٹھانے کی گستاخی کی تھی, کو نکال کر تختہ دار پر چڑھا دے, میرے شعور کو زندہ در گور کر دے، جس نے میرے ذہن کو شمع علم سے روشن کیا. میری زبان جو زیادہ چلتی ہے اس کو میرے حلق سے ہاتھ ڈال کر جڑ سے نکال دے اور مجھے زمیں پر گھسیٹے تاکہ آئیندہ کوئی فرزند بلوچ بولنے, لکھنے, سوچنے اور بات کرنے کا وہم وگمان اپنے دھیان میں لانے سے باز رہے اور خوف اس کی نسوں میں گھل جائے, اور پھر میری ماں بہنوں کو سب محلہ داروں کے سامنے ننگی ننگی گالیاں بک کر بے آبرو کردے تاکہ کوئی ماں: بچہ جننے سے پہلے حمل گرا دے, کوئی بہن اپنے بھائیوں کی غیرت اور بازو بننے سے پہلے بازار میں نیلام ہو جائے۔

میں یہ سوچ رہا تھا کہ موصوف نے اب تک کتنے فرزندان بلوچ کو ڈرا دھمکا کر حق و صداقت اور انصاف پر مبنی تحریروں اور تقریروں کا قتل عام کر چکا ہو گا, جو سمندر کے سینے پر پاوں رکھ کر لکھتے تھے، جو پہاڑوں کی بلندیوں کے خلاف لکھتے تھے, جو پانی کے اوپر کھڑے ہوکر سچائی کی بھاشا بولتے تھے، جو سمندر کے تیز اور ٹھاٹھیں مارتی لہروں کو روکتے تھے. میرا بھی ایڈریس وہی ہے جو سبھی بلوچ فرزندان کا تھا, میں بھی وہیں رہتا ہوں جہاں یہ سبھی دیپ جلاتے, فروغ ظلمت شب کے خلاف سانپوں سے بھرے گھنیرے جنگلوں, گلی کوچوں اور تاریک راہوں کو اپنے خون جگر سے منور کرتے ہیں. میرا بھی یہی ایڈریس ہے , جہاں جھوٹوں, عہد شکنوں, منافقوں اور ظالموں کو ایندھن جہنم بنادیتے ہیں, ان سبھی کو سزائیں دو, مصلوب کر دو۔ مگر۔۔۔۔

سنو
ہم آخری بزدل ہیں
ہمارے بعد شاید نیک لوگوں کی بشارت جھوٹ کی ہمزاد نکلے
سب منافق لفظ مٹی کی تہوں میں آخری رسموں کا حصہ ہوں
سبھی نامرد سمجھوتوں کی ورقے پاوں کی مٹی بنیں
بنجر دعاوں کا دھواں انجام کی دہلیز تک پہنچیں
مشینوں کا تسلسل اجنبی انصاف کی پہچان نکلے
لفظ بکھریں اور ہنگاموں کی شکلیں اوڑھ کر اندھی سماعت میں اگیں, کہہ دو
ہمارے بعد جو بھی آئیں گے ہم سے نہیں ہوں گے
کہ
ہم آخری بزدل ہیں۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔