عالمی آگ کی تپش – برزکوہی

343

عالمی آگ کی تپش

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

پاکستان کی معاشی حوالے سے عالمی سطح پر عالمی استحصالی قوتوں اور طاقتوں سے بھیک، قرض، مدد و تعاون اور عوض میں بلوچ سرزمین خاص کر گوادر اور بلوچوں کے قدرتی وسائل کو عالمی قوتوں کو فروخت کرنے کے ساتھ بلوچ سرزمین کو جنگی اڈے میں تبدیل کرنے کا آغاز ویسےتو کب سے شروع ہوچکا ہے، مگر اب پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی گھنٹی تیزی کے ساتھ بجنے پر پاکستان مزید شدت کے ساتھ ہاتھ و پاوں مارنے کی کوشش میں ہے۔

حالیہ دنوں، ہمیشہ کی طرح پنجابی قوم کا دیرینہ حلیف سعود خاندان کی طرف سے پاکستان کو 3 ارب ڈالر اور تین سال تک 9 ارب ڈالر کا تیل ادھار دینا اس بات کی واضح دلیل ہے، پاکستان بدلے میں پھر سعودی عرب کو بلوچ سرزمین اور بلوچ ساحل اور وسائل ہی دیگا۔ اس کے علاوہ اور پاکستان یعنی پنجاب کے پاس دینے کے لیے کیا ہے؟

گوکہ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محممود قریشی نے ٹی وی چینل پر اپنے انٹرویو میں سعودی عرب کی حالیہ تعاون اور ادھار کو غیر مشروط قرار دیکر انتہائی فنکارانہ اور مکارانہ انداز میں اس سعودی تعاون کو مدینے والے کا کرم و نواذش قرار دیا۔

افسوس اور قابل نفرت اس بات کی ہے کہ اس جدید دور اور اکیسویں صدی میں بھی پنجابی قوم، سعودی عرب و پاکستان کی بلوچوں کے خلاف جرائم میں شراکت اور بلوچ وسائل کی فروخت و لوٹ مار کو مدینے والے کی کرم قرار دیکر بلوچ قوم اور مہذب دنیا کو بے وقوف بنانے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔

یہ مدینے والے کی کرم اور نوازش نہیں بلکہ بلوچ سرزمین پر بلوچوں کے اوپر ڈھائے جانے والی پنجابی شاہی اور سعودی شاہی خاندان کی قہر اور جبر کی ایک نیا اور خوفناک سلسلہ شروع ہوگا۔

بلوچ ساحل اور وسائل پر قبضے اور لوٹ مار کے ساتھ سعودی عرب اپنے کٹر حریف ایران کو مزید سبق سکھانے کی خاطر بلوچ سرزمین کو بطور اڈہ استعمال کرکے بلوچوں میں سنی یعنی مذہبی شدت پسندی کو مزید پروان چڑھا کر بلوچ سیکولر سماج کو مزید گند آلود اور پراگندہ کردیگا۔ جو بلوچ قوم کو مذہبی سوچ اور انتہاء پسندی کی بنیادوں پر تقسیم در تقسیم کرکے بلوچ قوم پرستی اور قومی سوچ کو مسخ کردیگا۔ جو بلوچ نیشنلزم اور بلوچ نیشنلزم اور سیکولر بنیادوں اور فلسفے پر چلنے والی قومی آزادی کی تحریک کے لیئے آنے والے وقتوں میں انتہائی خطرناک اور کربناک ہوگا۔ جس کے آگ میں صرف ایک ہی نسل نہیں بلکہ کئی نسلیں تڑپ تڑپ کر راکھ ہونگے۔

اس عالمی آگ کی تپش میں کوئی بھی بلوچ محفوظ نہیں ہوگا، وہ شہروں، دیہاتوں، پہاڑوں، یورپ، خلیج ممالک خدا کرے پاکستانی پارلیمنٹ سے لیکر سکون و مراعات اور آسائش کی زندگی گذارنے میں مگن کیوں نہ ہو، وہ فناء ہی ہونگے، اگر خدا نخواستہ اس آگ کو قابو پانے کیلے وسیع علم و آگاہی و ادراک و احساس اور منصوبہ بندی نہ ہو۔

عالمی قوتوں کی آپسی ٹکراو، مذہبی منافرتوں، قتل و غارت گری و قتل عام اور دنیا کے پروکیسز ایک دوسرے کے ساتھ برسرپیکار ہونگے، تو سب کے سب برائیوں اور تباہیوں کی آمجگاہ بلوچ گل زمین اور نشانہ خاص کر بلوچ قوم ہوگا اور اس وسیع اور طویل خون ریزی میں بلوچ قوم کے ساتھ دیگر پاکستان کی زیردست، محکوم اقوام سندھی پشتون اور سرائیکی بھی کسی بھی حالت میں محفوظ نہیں ہونگے۔

پاکستان اور چین سامراج پہلے سے بلوچ سرزمین پر اپنی فوجی طاقت اور قوت کے ساتھ موجود بلوچ وسائل کے لوٹ کھسوٹ اور بلوچ نسل کشی میں برابر برابر مصروف عمل ہیں۔

دوسرے طرف دنیا کا بے تاج بادشاہ امریکہ معاشی اور عسکری حوالے سے چین کی مضبوطی کو شروع دن سے ٹیڑھی آنکھ سے دیکھتا آرہا ہے، مگر پاکستان کو ابھی تک رام رام کررہا ہے اور سعودی عرب کو گلے لگا رہا ہے۔ حب علی (سعودی )بغض معاویہ (ایران)کی وجہ سے پاکستان بھی اب تک فی الحال امریکہ بادشاہ کا مجبوری حلیف ہے۔

اسی تناظر میں واجہ انور ساجدی نے اپنے کالم میں ذکر کیا تھا کہ ڈاکٹر مالک بلوچ بھی اس صورتحال سے پریشان اور مایوس تھے، کیونکہ ڈاکٹر مالک بلوچ پنجابی اسٹیبلشمنٹ کا بندہ خاص ہوتے ہوئے، اپنی ڈھائی سالہ دور اقتدار میں تمام کھیل کھود میں برائے راست شامل ہوتے ہوئے اس کو سب کچھ معلوم ہے کہ کیا ہوا؟ کیا ہوگیا اور آگے کیا ہونے والا ہے؟

اس لیئے نہیں کہ ڈاکٹرمالک کو بلوچ قوم بلوچ سرزمین کے حوالے سے درد و تکلیف اور احساس ہے بلکہ اس لیے کہ ڈاکٹر مالک کو اپنی ذاتی ملکیت و جائیداد، روایتی منافع خور سیاست، ذاتی اور خاندانی، فکر کی پریشانی اور مایوسی ہے کہ آئیندہ ان کا کیا ہوگا؟ ڈاکٹر مالک یہ بھی بخوبی جانتا ہے کہ اس عالمی آگ کو جلانے اور مدد کرنے میں اس کا اور اس کی پارٹی کا کس حد تک ہاتھ اور حصہ داری ہے پھر ضرور ڈاکٹر اور اس کی کمپنی تاریخ کی کرب اور عبرت سے کسی بھی صورت محفوظ نہیں ہونگے۔

جناب سردار اخترمینگل اور اس کی ٹیم بلوچستان کی اس تمام مخدوش صورتحال سے باخبر ہوتے ہوئے، بے خبر ہوکر روایتی سیاست کی گول سرکل میں ابھی تک افغان مہاجرین اور مسنگ پرسنز کی ڈھول کو پیٹتا ہوا نظر آرہا ہے۔ اخترجان یہ بھول رہا ہے افغان مہاجرین سے 100 گناہ زیادہ چینی و بہاری اور پنجابی مہاجرین کی بلوچستان پر یلغار شروع ہونے والا ہے اور مزید اب تک ہزاروں کی تعداد بلوچ مسنگ ہے، وہ چند سالوں میں آئیندہ لاکھوں کے تعداد میں ہوکر خود بلوچ قوم کے ساتھ پورا بلوچ سرزمین مسنگ ہوگا، تو پھر اخترمینگل کے پاس سیاست کے لیئے کیا ہوگا؟

سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ خود آزادی پسند قیادت اور جہدکار اس موجود اور آئیندہ صورتحال کو کس زوایہ نظر سے دیکھتے اور سمجھتے ہیں؟ کس حد تک سیاسی بصریت اور ادراک رکھتے ہیں؟ ان کے پاس کیا منصوبہ بندی اور پالیسی موجود ہیں؟ اور پھر کس حد تک عمل درآمد ہورہی ہے؟ یا ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے ہیں؟ یا وقت و حالات کے انتظار اور رحم و کرم پر سب کچھ چھوڑ کر فی الحال سطحی اور طفلانہ سوچوں اور رویوں میں وقت گزاری کررہے ہیں؟ اگر ایسا ہی ہے تو نتائج انتہائی بھیانک ہونگے۔

وقت کم مقابلہ سخت، اس عالمی آگ پر قابو پانے کے لیے چند بالٹی پانی یعنی محدود معمولی سے معمولی سرگرمیوں اور کاراوائیوں سے کچھ نہیں ہوگا بلکہ مضبوط و طاقت ور اور موثر ردعمل ہی سے اس آگ کو قابو پانا ممکن ہوگا۔ جس کے لیئے روایتی و ماضی پرستانہ رویوں اور طرز عمل سے مکمل نکل کر انتہائی سنجیدگی سے سوچ و بچار کر آگے بڑھانا ہوگا کیونکہ ماضی میں روایتی رویوں اور طرز عمل ہرگز قومی تحریک، مقصد اور کامیابی کی حصول کے لیئے نہیں بلکہ صرف سستی شہرت اور جنگی منافع خوری کے لیئے ہوچکے ہیں، اب اگر ارادہ سوچ اور نیت قومی و عوامی تحریک، مقصد اور کامیابی کی ہے پھر بھی طریقہ اور طرز عمل وہی روایتی اور ماضی پرستانہ ہوا تو پھر نتیجہ واپس وہی ہوگا جو پہلے ہوا تھا تو پھر بقول معروف سائنسدان آئنسٹائن کہ “ایک بارتجربے سے جو نتیجہ حاصل کرنے کے بعد دوبار تجربہ کرکے مختلف نتیجہ حاصل کرنے کی توقع کرنا بے وقوفی اور احمقی ہی ہوگا۔”

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔