شہادتِ جنرل رازق معمہ نہیں – برزکوہی

1018

شہادتِ جنرل رازق معمہ نہیں

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

اس حد تک سب پڑھتے، سنتے، لکھتے اور کہتے ہیں کہ آج سے نہیں بلکہ 18 سال سے دنیا میں ایک گریٹ گیم چل رہا ہے اور دنیا ایک گلوبل ولیج کا شکل اختیار کرچکا ہے۔ دنیا کی ڈیموگرافی تیزی کی ساتھ تبدیل ہورہی ہے، حالات بھی تیزی کے ساتھ تبدیل ہورہے ہیں، مگر ان برق رو تبدیلیوں کے اثرات اور ثمرات سے بلوچ قوم اور بلوچ سرزمین کے حالت اور صورتحال پر کیا اثر پڑے گا؟ کیا ہر تبدیلی بلوچ قومی تشخص، بقاء اور بلوچ قومی تحریک کے لیئے سود مند ثابت ہوگا؟

افغانستان کی صورتحال اور افغانستان میں مثبت یا منفی تبدیلی، امن اور جنگ، استحکام اور غیر استحکام دونوں صورتوں میں اس کے تمام اثرات ماضی میں بھی اور آج بھی براہِ راست، بلواسطہ یا بالاواسطہ بلوچ قوم، بلوچ سرزمین اور بلوچ قومی تحریک پر پڑے ہیں اور پڑتے رہینگے۔

بہت دور جانے کی ضرورت نہیں ہے، 90 کی دہائی میں افغان قومی لیڈر اور افغان صدر، ترقی پسند رہنما ڈاکٹر نجیب اللہ کے تختہ دار پر لٹکائے جانے اور شہادت، اس کے بعد بلوچستان اور بلوچ قومی تحریک کی مجموعی صورتحال اور بلوچستان کے حالات؟ اور آج ایک بار پھر افغانستان کے صوبہ قندھار کے پولیس سربراہ کے روپ میں افغان قومی لیڈر اور بلوچ دوست رہنماء حاجی رازق اچکزئی اور شہید ڈاکٹر نجیب اللہ کے دور میں ڈاکٹر نجیب کا دوست اور سابقہ سیکریٹری جبار قہرمان اور حاجی رازق کا بندہ خاص حاجی صالح محمد خان اچکزئی سمیت دیگر ایک ہی لابی کے ہم خیال رہنماوں اور عہدیداروں کو حالیہ ایک ہی مہینے میں اندورونی سازش کے تحت انتہائی آسانی کے ساتھ ٹارگٹ کرکے شہید کرنا خود کس طرف اشارہ کرتا ہے؟

کیا ایک بار پھر ماضی کی طرح بلوچ قیادت اور جہدکار پہلے سے آنے والے حالات اور تبدیلی کے ادراک سے محروم ہوکر، غور و فکر سے بیگانہ، صرف جنگی منافع خوری اور ذاتی معاشی استحکام کے غرض سے سب کچھ پورے قوم اور قومی تحریک کو حالات اور واقعات کے رحم و کرم پر چھوڑ کر عدم توجہ اور عدم دلچسپی کا رویہ اپنا کر آخر میں اسی فارمولے کو دوہراتے ہوئے، یہ فرمائیں گے کہ ہزاروں کی تعداد میں اس وقت مری قبیلے کو کس نے کہا تھا کہ وہ افغانستان آئے اور جلاوطنی اختیار کرے؟ کیونکہ اب آزادی کی جنگ کے لیئے وقت اور حالات موافق نہیں ہیں، بجائے قوم کو حالات اور واقعات اور اصل صورتحال سے علم اور آگاہ کرنے کے۔ الٹا قومی جہدکاروں اور بلوچ مہاجرین کو موردالزام ٹھہرا کر بے یار و مدگار چھوڑ دینا اور ساتھ ساتھ آپسی رنجش اور تضادات کو اس لیئے پیدا کرنا تاکہ آپسی تضاد اور اختلافات کی ہواوں اور لہروں میں تحریک خود مسخ ہوکر جمود کا شکار ہوں، لوگ بدظن اور مایوس ہوکر اپنی مدد آپ ادھر ادھر ہوں اور الزام بھی قیادت کی حالات سے عدم ادراک، لاعلمی اور نالائقی پر سوالیہ نشان اور دھبہ نہ ہو، سب کچھ قوم کی پیشانی پر نقش ہو۔

بجائے متبادل حل، پالیسی، منصوبہ بندی اور حکمت عملی مرتب کرنے کے انتہائی صفائی اور ٹیکنیکل انداز میں راہ فراریت کی شکل میں تحریک اور قوم سے ہاتھ اٹھانا اور ہاتھ اوپر کرنا، آج خود اس حقیقت کی تصدیق کرتا ہے۔ اس وقت تحریک، تنظیم، منصوبہ بندی اور طویل جنگ کے کسی پلان اور منصوبہ بندی کا فقدان ہے، تو پھر ماضی کے تلخ تجربات و مشاہدات اور تمام حقائق کو مدنظر رکھ کر آج بلوچ قیادت اور جہدکاروں کے پاس طویل و دیرپاء اور مستقل قومی جنگ کے لیے کیا اور کس طرح کی منصوبہ بندی، پالیسی و حکمت عملی ہے؟ اگر خدانخواستہ دوبارہ ماضی کی صورتحال سے بلوچ تحریک اور بلوچ قوم کا آمنا سامنا ہوا تو متبادل راستہ اور طریقہ کار کیا ہے؟ تاکہ بلوچ قومی جنگ اپنی قومی قوت اور قومی طاقت کے بل بوتے پر اپنی منزل کی طرف جاری و ساری ہو؟

جھوٹ، خوش فہمی، دھوکا دہی، فریب اور سبز باغ دکھانے یعنی امریکہ آئے گا ایران پر حملہ کریگا اور بلوچ قومی تحریک کو سپورٹ کریگا اور بلوچستان کو آزاد کردیگا اس وقت بھی یہی کہا گیا کہ سپر پاور روس آئیگا، گوادر پورٹ کو تعمیر کریگا، بلوچ قومی تحریک کو سپورٹ کریگا اور بلوچستان کو آزادی دلوا دیگا۔ مگر ایسا نہیں ہوا، روس خود انہدام کا شکار ہوکر بکھرگیا، پھر کیا ہوا؟ قوم میں مایوسی اور بدظنی پیدا ہوئی ذمہ دار کون؟ روس یا پھر حالات و واقعات سے نابلد اور ادراک سے محروم قیادت اور جہدکار؟ جب ایسا نہیں ہوا تو ایسا ہی ہوگا، دوسرا اور تیسرا پلان یہ ہوگا؟ کیا آج پہلا، دوسرا اور تیسرا پلان اور خاکہ ذہن میں موجود ہے؟ اس پر سوچ و بچار ہوچکا ہے؟ لانگ ٹرم پالیسی مرتب ہوچکا ہے؟

کیا دنیا میں آج تک کوئی کمزور طاقت، کمزور تحریک اور کمزور قوت گریٹ گیم اور تبدیلی کا حصہ بنا ہے یا بنے گا؟ یا کسی کمزور قوت کو کسی نے بھی سپورٹ کیا ہے؟ تو پھر امریکہ کے انتظار اور خوش فہمی میں مخصوص ایجنڈے کے تحت اپنی طاقت کو خود سازش، الزام، حربوں، ہتھکنڈوں اور دیوار سے لگا کر منتشر کرنا، اس کے بعد بھی امریکہ کی مدد اور کمک کی جھوٹی تسلیاں دینا، کیا بلوچ نوجوانوں کو ماضی کی طرح دھوکا اور گمراہ کرنے کے مترادف نہیں ہوگا؟ جب چند مدت بعد نوجوان خشک صحرا میں کچھ بھی نہیں دیکھینگے، تب خوشی فہمی اور غلط اندازوں کی سحر سے نکل جائینگے، تو ان کا پوزیشن کیا ہوگا؟ وہ سوچ کے حوالے سے کس سطح پر کھڑے ہونگے؟ مایوسی نا امیدی اور بدظنی؟ اس کا ذمہ دار پھر کون ہوگا؟ اس کا فیصلہ وقت اور تاریخ کریگا۔

آج یہ بات ہر ذی شعور انسان کے لیئے کوئی معمہ نہیں ہے، عالمی قوتوں اور عالمی کھلاڑیوں کے کھیل اور مفادات کے حصول کی تکمیل اور خاص معاشی ایجنڈے، توسیع پسندانہ عزائم اور ان کے مقابل، مخالفت اور رکاوٹ کے لیئے مذہبی شدت پسند تنظیمں، طالبان اور داعش وغیرہ وغیرہ صرف اور صرف بطور کارڈ استعمال ہورہے ہیں۔ ہر ایک اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر کسی بھی معمولی اور غیر معمولی ٹارگٹ اور کاروائی کو طالبان اور داعش کی قبولیت کا نام دیکر دنیا کے باشعور قوموں اور انسانوں کو فریب دینے کی کوشش کرتا ہے۔ آج طالبان، داعش اور دیگر شدت پسند تنظیموں کی فیکٹری پاکستان کا وجود مہذب دنیا کے لیئے سنگین خطرہ ہوتے ہوئے بھی کسی نا کسی جگہ معاشی مفادات اور اپنی توسیع پسندانہ عزائم کو پایہ تکیمیل تک پہنچانے کے لیئے اہم ضرورت ذریعہ اور جواز بھی ہے۔

تو اس پیچیدہ صورتحال میں گوکہ بلوچ قومی تحریک، ماضی کے نسبت شعوری، تنظیمی، نظریاتی اور فکری بنیادوں پر قومی جذبے اور جذبہ قربانی سے سرشار و جاری و ساری ہے اور جاری و ساری رہیگا لیکن پھر بھی بلوچ قیادت اور جہدکاروں کے پاس پلان، منصوبہ بندی، حکمت عملی اور خاص کر آنے والوں دنوں اور سالوں کا ادراک ہونا چاہیئے۔ اس کے لیئے مزید شب و روز سوچ بچار کرکے ہر وقت متحرک ہوکرہر ایک جہدکار کو خلوص اور ایمانداری سے اپنی اپنی ذمہ داریوں کو نبھاکر تمام تر توجہ اور دلچسپی قومی قوت اور قومی طاقت پر مرکوز کرکے بڑھنا ہوگا۔ بجائے سطحی اور غیر ضروری الجھنوں میں الجھن کا شکار ہوکر اپنی حقیقی ذمہ داری اور اہم مقصد سے غافل ہوکر حالات کے رحم و کرم پر سب کچھ چھوڑ دینا اور انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنا اور اللہ خیر کریگا پھر امریکہ اسرائیل وغیرہ اپنی جگہ نعوذباللہ کوئی فرشتہ آسمان سے بھی آئے ہمیں ہماری مقصد میں کامیابی دلا نہیں سکتا۔ جب تک اپنی قوت اور طاقت کا انحصار خود پر نہیں ہوگا۔

دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔