انقلاب خود اپنے بچوں کو نگلتا ہے – لیاقت بلوچ

421

انقلاب خود اپنے بچوں کو نگلتا ہے

تحریر: لیاقت بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

دنیا میں قومی تحریکوں نے جب اپنی قدمیں ترقی کی طرف بڑھائیں، تو انہیں اپنے کارواں میں مخلص اور ایماندار اور جانباز ساتھی ملے ہیں، دنیا کی ترقی میں قربانی اور محنت ضروری ہے۔ آج اگر ایک شخص اپنی زندگی کے مفادات کو آگ میں جھونک کر قومی مفادات کو اہمیت دیتا ہے، تو وہی ایک مخلص اور جانباز بنتا ہے، انسان اپنی فطرت میں ہر طرح کے سوچ اور راز رکھتا ہے، لیکن انسان بعد میں اپنے سوچ کو اپنے طور طریقے سے استعمال کرتا ہے اور اپنی ذات اور زندگی کے بارے میں خود سوچتا ہے، کیونکہ وہ ان چیزوں میں آزاد ہے۔

بلوچ قومی تحریک میں بہت سی ایسی مثالیں ملتی ہیں، جو دنیا کے عظیم شخصیتوں سے جڑی ہیں، بلوچ قومی جنگ کی جڑیں وہاں سے جڑی ہیں، جہاں سے آزادی کی خوشبو آتی ہے، کئی قابلِ قدر قربانیوں کی وجہ سے آج بلوچ قوم اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی اہلیت رکھتا ہے، یہی بے پناہ قربانیوں کو وجہ سے، دنیا کو بلوچ قوم ایک مظبوط قوم نظر آتی ہے، یہ انہی عظیم قربانیوں کی برکت ہے کہ آج ہم اس اسٹیج پر ہیں، ہماری جنگ ایک مجموعی جنگ ہے، جہاں قبیلہ سرداریت کے کچھ لوگ نہیں یہاں خوار غریب اور گلزمین کے پکارے ہوے لوگ ہیں۔ اس جنگ کو امیر اور سردار کے بیٹے کبھی برداشت نہیں کرسکتے کیونکہ انکو قوم کیلئے درد نہیں ہوتا، درد کا احساس کرنے کیلئے درد سہنا پڑتا ہے، لیکن آج انہوں نے اپنی مالیت یا انکے گِرے ہوئے کاموں نے ہمارے کاروان کو تکلیف دی ہے، انہوں نے کچھ ایسے کام کیئے نہیں ہیں، جن سے ہمارے قومی قبضے پر گہرے اثر پڑے ہوں.

جب کبھی ایک ساتھی شہید ہوتا ہے، تو مجھے نہیں لگتا کہ وہ شہید ہو گیا ہے، یہ محسوس ہوتا ہیکہ وہ مجھ سے دور ہے لیکن اس نے ہماری دلوں میں ایسی جگہ پہ جگہ کی ہے، جہاں اسکے جانے سے ایک کونہ خالی ہوگیا ہے، لیکن کچھ ایسے ہوتے ہیں وہ کبھی نہ بھلائے جاتے ہیں، کچھ ایسے کام کرتے ہیں وہ ہماری زندگی کا ہمسفر بن کر ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ آج وہ ہمارے درمیان میں انسان کی طرح نہیں بستے، وہ ایک نام اور نظریے، ایک سوچ کی طرح ہوتے ہیں، اسکو بھول جانا ایک جرم ہوتا ہے.

آج ایک ایسی خبر نے میری ہوش اڑالیئے کہ موت کا سامنا ایک محبت کرنے والے سے ہورہا تھا، اس نے خندہ پیشانی سے اپنے قومی فرض کو سر انجام دیتے ہوئے ہمارے بیچ سے جسمانی حوالے سے جدا ہوکر، ہمارے اندر ہمیشہ بس گیا. میں مانتا ہوں کہ اس نے خودکشی کرلی ہے لیکن پاکستانی اجرت دار طالبان کے پالے ہوئے بمباروں کی طرح نہیں، اس کو ایک درد اور ایک بھری آہ! نے خودکش کروالیا۔ جو ہماری نسل کا ارتقاءِ وجود اور بقا کیلئے تھا۔ وہ اس خواب کو بچپن سے دیکھ رہا تھا۔

اس کا مہر و محبت کبھی ہمارے دل سے نہیں نکلے گا، وہ مجھے جب نظر آتا، تو مجھے لگتا تھا کہ میرے سامنے ہر وقت ایک پھول کھڑا ہے، چہرے پہ ہر وقت مسکراہٹ اور میٹھی میٹھی باتیں اور اخلاق اور ایک ایسی رویے کا مالک، جس نے ہر طرف اپنے مہر بکھیرے۔ وہ ہمیشہ ہر کام سرانجام دیتا رہتا، جب اس کو گلزمین سے نکلتی ہوئی چیخوں اور یتیم بچوں کی آہیں سنائی دیتی، تو وہ اپنے کام میں اور مخلص ہو تا۔

ریحان جان کی اس عمر میں اس عظیم قربانی نے بلوچ قوم کے نوجوانوں کی جہد میں اور انکی منزل کیلئے ایک مشعلِ راہ ثابت ہوا۔ جس سے وہ اپنی منزل تک آسانی سے پہنچ سکتے ہیں.

اسکی شہادت کی خبر میں نے پڑھا، تو میں اسکی یادوں کے سمندر کی گہری لہروں میں ڈوب گیا، میں اس کو یاد کرنے کیلئے خود کو بھول چکا تھا، اس نے دشمن کو توڑنے کیلئے کبھی خود کو نہیں توڑا، اپنے سوچ کو مضبوط کرتا رہا، اسکی قربانی نے ہزاروں کو مضبوط کرلیا، وہ دشمن سے کبھی بھی نہیں ڈرتا تھا، وہ ان سے ہمیشہ مقابلہ کرنے کیلئے نکلتا تھا، اسکی قربانیوں نے آج کئی لیڈروں کو بہت متاثر کیا ہے کہ وہ جھک کر اسکو سلام پیش کرتے ہیں، اگر کل مورخ لکھے گا تو اسکا قلم ضرور اس نوجوان شہید کو یاد کریگا، جس نے اپنی ذاتی زندگی سے بہتر قومی زندگی کو سمجھا.

شہید ریحان جان مجید برگیڈ کا ایک جانباز ممبر تھا، جس نے سب کچھ کر دکھا دیا، جیسے اسکے ٹیم کے ممبروں نے کیا تھا.
2 اگست 1974 کو شہید مجید برگیڈ نے کوئٹہ میں پاکستان کے وزیرعظم ذولفقار علی بھٹو پر حملہ کیا.11 اگست 2018 کو شہید ریحان نے پاکستان اور چین کے استحصالی کمپنی کے انجنیئروں پر حملہ کیا، جب وہ سیندک پروجکٹ کیلئے جا رہے تھے تو دالبندن کے مقام پر اس جانباز نے ان پر حملہ کیا.

پاکستان اور چین کیلئے پیغام چھوڑا کہ ہمیں یہ منصوبے منظور نہیں ہیں، ہم انکو پہلے بھی تنبیہہ کرچکے ہیں، لیکن وہ ان سے کبھی باز نہ آئے لیکن ہم ان پر کاروائی کرتے رہے ہیں اور بھی کریںگے یہاں ایک قوم کے وجود کا مسئلہ ہے، ان کو پھر تنبیہہ کرتے ہیں کہ وہ یہاں سے باز آجائیں، ورنہ انجام وہی ہوگا، جو ایک دشمن، دوسرے دشمن سے کریگا. سرخ سلام شہید ریحان بلوچ کو جس نے تاریخ میں اپنے لیئے ایک نام چھوڑا.

 

دی بلوچستاں پوسٹ : اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔