شال کا پہلا سفر – چاکر بلوچ

214

شال کا پہلا سفر

چاکر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ : اردو کالم

جب پہلی دفعہ شال کے خوشبوں کو میں نے محسوس کیا، تو مجھے اس خوشبو نے اپنا دیوانہ بنادیا، دنیا میں اگر کہیں جنت ہے تو وہ شال ہی ہوسکتا ہے، شال کسی جنتِ بریں سے کم نہیں، خاص طور پر ان ملنگوں کیلئے جنکی دنیا شال ہے۔ کتنا مزہ ہے اسکی ٹهنڈی ہواوں میں۔ جب اس کی دوپٹے کو چھو کر وہ ہوا اڑ کر اپنے ساتھ لے آتی ہے، اف! کتنا درد بھرا ہوتا ہے، اس ہوا میں۔

جب مغرب ہوتی ہے تو اس ٹھنڈی ہوا کو سمجھنے کی کوشش کرو، بہت طویل داستان سنا رہی ہوتی ہے تمہیں، داستان ان عاشقوں کی جو شال کی عشق میں در در سے آتے تھے، وہ رات کی 3 4 بجے اسکی گلیوں میں گھومتے تھے، وہ جنہیں اپنی محبوب کی صورت نظر آتی تھی شال کی ان ہواووں میں، شال کی گاڑیوں کی شور میں ایک عجب سا سکون محسوس ہوتا ہے۔ ہائے وہ اتنے دیوانے تھے کہ شال کی گلیوں میں جان دے دی اپنی، لیکن اسکو چھوڑ کر پھر نہیں گئے، وہ بےبس بستیاں آج بھی انکی انتظار میں ہیں۔

شال کا عشق اتنا گہرا ہے کہ جان دے کر بھی قرضہ ادھورا رہ جاتا ہے، پتہ نہیں کیا رشتہ ہے میرا اس شہر سے، شاید کچھ کھو گیا ہے میرا اس کے بازاروں میں، ہر دفعہ میں ڈھونڈنے جاتا ہوں لیکن وہ ملتا ہی نہیں مجھے۔ قرار نہیں آتا، میں بس گھومتا رہتا ہوں اسکی گلیوں میں، شاید وہ مل جائے لیکن عجب سا مزہ آتا ہے، جب بھی میں اس شہر میں پیر رکهتا ہوں، مجھے عجب سا ایک شور سنائی دیتا ہے، اس کے آدھی رات کے سناٹوں میں۔ اس کے ویران گلیوں میں گھومنے کا ایک الگ سا لطف جب ہر طرف خالی ڈھانچے نظر آتے ہیں۔

پتہ نہیں کس کے انتظار میں ہیں یہ منتظر آنکھیں کب خوشی ملے انکو، کب نور آجائے ان میں، اُف! یہ دیوانگی جو کهینچ لائی مجھے۔ اُف! یہ بہار کا موسم جو جنت لگے شال مجھے، دل کرتا ہے چیخ لوں دل کی درد بھری آواز کیساتھ، سارا یہ غم اتر جائے، شاید اس روح کو چین آئے، دل کرتا ہے باہیں ڈال لوں اسکے گرد کبھی نا چھوڑنے کیلئے۔

کاش میں اسکا مٹی بنتا اور صدیوں اسکا حصہ بن کر تہہ جمائے نظریں اوپر ٹکائے لیٹے رہتا اور اس شہر کی تمام ثروت و رعنائیوں کو اپنے تئیں جذب کرکے ہمیشہ کیلئے اسکا حصہ بن جاتا۔