حئی و ضیاء، میرے زیست کے آئینے – سارین بلوچ

288

حئی و ضیاء، میرے زیست کے آئینے

تحریر: سارین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ : اردو کالم

بہت سوچنے کے بعد آج قلم اٹھانے کی جرات حاصل ہوگئی ہے، اس قلم کو مجھے دل جان کے قلو (پیغام) کے بعد اٹھانا چاہیئے تھا۔ میرے پاس الفاظ بہت کم ہیں، جو میں دلجان کی تعریف میں صفحے پر اتار سکوں۔ دلجان، ضیاء، ٹک تیر، شعبان، کمانڈر جھالاوان ایک ایسے بہادر سپاہی نکلے جس کی وفاداری، وطن سے محبت ہماری سوچ سے بھی بڑھ کر تھی۔ دلجان وطن کے ایک ایسے بہادر اور سچے عاشق نکلے، جو آخری گولی تک دشمن سے لڑتے رہے اور دوستوں کے سارے راز اپنے سینے میں دفن کر کے چلے گئے۔

وہ کیسے نہ کرتے ان رازوں کو دفن، جن رازوں کے پیچھے وہ کئی خواریوں کے بعد بلوچستان کی آنے والی نسل کے ہاتھوں آزادی کی ایک ایسی جنگ تھما رہا تھا، جس کی ضرورت بلوچستان کے پیاسے نوجوانوں کو کئی سالوں سے تھا۔ اپنے کام، اپنے مقصد اور اپنے ساتھیوں کو بچانے کے لیئے ہی اس نے ایسا قدم اٹھایا۔ قوموں میں بہت کم ہی دلجان، بارگ، حئی، سمیع، امیر، شیہک، امتیاز اور عرفان جیسے بہادر بیٹے پیدا ہوتے ہیں۔ جو اپنے آنے والی نسل میں شعور پیدا کرتے ہیں۔

آج میں خود کو جس مقام پر دیکھتی ہوں، جہاں ہمارے پاس ہمارے پیارے تو نہیں ہیں، مگر ان کی سوچ و فکر ہمارے ساتھ ہے۔ شہیدوں نے اپنے لہو سے جو قربانیاں دی ہیں، تاریخ ان قربانیوں کو سنہرے الفاظ میں یاد رکھے گی۔

رسم و رواج کے پابندیوں تلے، شاید آج مجھ میں بھی سوچنے کی قوت نا ہوتی۔ شاید میں بھی اپنے ذات کی حد تک سوچتی، میر معتبروں کی طرح آج میں بھی یہی سوچ کر چپ ہوجاتی کہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور ہمیں کافر اسرائیل اور را کے ایجنٹ الگ کرنا چاہتے ہیں، اگر ہم سچے مسلمان ہیں تو ہمیں پاکستان ( جو کہ اسلام کے نام پر ایک دھبہ ہے) کے ساتھ رہنا چاہیئے. یہ وہ مسلمان ملک ہے، جہاں مسلمان خود کو مسلمان کہنے پر شرم محسوس کرتے ہیں۔

دلجان اس حقیقت کو تسلیم کرکے سیاسی اسٹیج سے لے کر پہاڑوں تک بلوچ قوم کو غلامی سے نجات دلانے کے لیئے جدوجہد کرتے رہے، بلکہ وہ دشمن پر حملہ کرنے کے ساتھ ساتھ قلم کے ذریعے بھی لوگوں میں شعور پیدا کرتے رہے. انہوں نے اپنے تحریروں کے ذریعے بلوچ قوم کے نوجوانوں کو احساس دلایا کہ یہ وطن ہمارا ہے اور اس کے وارث ہم ہی ہیں۔

دل جان نے صرف ایک ہی مقصد کے لیئے اپنے ماں باپ، بہن بھائی اور بچوں کو چھوڑ کر پہاڑوں کا رخ کیا۔ وہ مقصد بلوچستان کی آزادی بابت لوگوں میں شعور پیدا کرنا تھا۔ وہ اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہوگئے اور آج بھی اس کے بعد اسکا کارواں اور اسکی سوچ زندہ ہے۔

دل جان ایک نہ مٹنے والا ہستی ہے، جسے دشمن چاہ کر بھی نہ مٹا سکا، دلجان نے ہمیں سوچنے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی قوت دی. دل جان نے ہمیں سکھایا کہ اپنے حق کے لیئے کیسے لڑا جائے۔ اپنے مقصد پر کیسے ڈٹے رہنا چاہیئے۔ کیسے ہر مشکل کو خندہ پیشانی سے قبول کرکے اپنے مشن، اپنے مقصد کو آگے بڑھا کر اپنے وطن کو حقیقی امن کا گہوارہ بنا کر اپنے لوگوں کو آزادی کی زندگی سے آشنا کیا جا سکے۔

دلجان کا مقصد صرف بلوچستان اور اس میں بسنے والے لوگوں کو غلامی سے نجات دلانا اور انہیں ایک آزاد قوم کی حیثیت سے دنیا کے سامنے پیش کرنا تھا، ایک ایسا وطن جہاں بلوچ قوم کیا، اس میں بسنے والا ہر جاندار خواہ وہ جانور کی شکل میں ہو یا پرند و چرند کی شکل میں. یہاں چلتی ہوئی ہوا ہو یا یہاں بہتی ہوئی ندیاں وہ ہر ایک کی آزادی کا خواہاں رہا۔ وہ ہمیں غلام کی غلامی، سرکار یا ان کے پالے ہوئے غداروں سے، معصوم بے گناہوں کو دشمن کی ظلم سے، مذہب کے ٹھیکیداروں سے، چور لٹیروں سے نجات دلانا چاہتے تھے۔

دلجان سے میری ملاقات بہت کم ہوئی تھی بلکہ یوں کہوں کہ وہ ملاقات ملاقات ہی نہیں جس میں دو لوگ آپس میں گفتگو بھی نہ کر سکے ہوں، میں اس ملاقات میں صرف دلجان کے چہرے کی طرف دیکھتی رہی. یہ میری خوش نصیبی تھی کہ دل جان سے ایک بار ملاقات تو ہوگئی، مگر میری بد نصیبی یہ کہ یہ میری ان سے آخری ملاقات بھی ثابت ہوئی۔ اس دن کے بعد نہ میں دلجان سے مل سکی، نہ بات کر سکی۔

سالوں بعد جب سوشل میڈیا کے ذریعے دل جان سے بات ہوئی تو وہ ہمیں ہمیشہ ہمارے فرض نبھانے کو کہتے تھے، جب ہم سب گروپ میں اکھٹے ہو کر ہنسی مذاق کرتے تھے، تو وہ یہ کہہ کر سب کو مخاطب کرتے کہ “کچھ اور کام بھی کرو، ہر وقت مذاق مستی میں وقت ضائع کرتے ہو۔”

دل جان کو پریشانی ہمارے مذاق ہمارے ہنسنے سے نہ تھی، مگر وہ یہ چاہتے تھے کہ ہم بھی وہی کریں، جس پر وہ سالوں سے عمل کرتا رہا ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ ہم بہنیں بھی اپنا کردار ادا کریں. وہ چاہتے تھے کہ سوشل میڈیا پر ہم کام کریں، اپنے اردگرد اپنے لوگوں میں شعوری بیداری لانے پر کام کریں۔

دلجان سے ملاقات کے بعد مجھے صرف اس کی مسکراہٹ، اسکی وہ میٹھی گفتار، وہ کچاری جو وہ اور حئی و باقی دوستوں کے ساتھ کررہے تھے، جن کے باتوں کو میں خاموشی سے سنتی رہی. حئی و ضیا میری زیست کے دو آئینے جن سے ہوکر زندگی گذرتی ہے۔ جن کے اپنے پن، دوستانہ مزاج و ایک دوسرے کے ساتھ ایک قول پر ڈٹے رہ کر اپنی جان تک سے گذرجانا. اسی فلسفے نے انہیں ہماری آنکھوں میں جگہ دی. اسی فلسفے نے انہیں ہمارے دلوں میں زندہ رکھا۔.

ضیاء اور حئی رشتہ دار ہونے کے علاوہ ایک دوسرے کے سب سے قریبی سنگت، ایک عمر میں بڑا تھا تو ایک ہنر میں۔ حئی کے کردار و عمل کی وجہ سے ضیاء کے نزدیک اسکی قدر کسی اعلیٰ مقام پر رہا اور عمر و سنگتی کے بنا پر ضیاء کسی قدر حئی میں سما چکا تھا. وہ کئی سالوں سے ایک دوسرے کے رازدار و سنگت رہے. شہر، پھر شہر سے پہاڑوں میں ایک ساتھ یک مشت رہ کر ایک دوسرے کا سنگت بن کر اپنے کام و تنظیم کو مضبوط بنانے کے لیئے ہر سمت کام کرنے کو نکل پڑے۔ جس دن حئی دلجان سے جدا ہوگیا ہوگا، تو سنگت کی جدائی نے کس قدر آگ برپا کیا ہوگا اسکے دل میں، یہ تو بس دلجان کو ہی بخوبی معلوم ہوگا۔

حئی سمیت دوسرے سنگتوں کا غم لیئے اسی راہ پر چلتا دلجان اپنے جہد، محنت اور خلوص سے، اپنے سنگت حئی کو پھر سے اس نے پایا، نئے نئے ساتھیوں کے شکل میں۔ دلجان نئے ساتھی پیدا کرکے کارواں کو حئی جیسے نڈر ساتھی دیتا رہا اور دشمن کو دکھاتا رہا کہ بلوچستان کے بیٹے ایسے بزدل نہیں، جو تمہاری ایک گولی کی آواز سن کر تمہارے قدموں میں اپنے ہتھیار پھینک دیں بلکہ ایسا سوچنا بھی اپنے لیئے گناہ سمجھتے تھے۔

دلجان اپنے مقصد و مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے، ہر ایک ورنا و بزرگ سے ملتا رہا۔ وہ سیاسی ذہانت کے بنا پر کسی سے بھی اسکے خواہش کے مطابق بات شروع کرکے، اپنے اصل ہدف پر لاتا اور جب وہ بھانپ لیتا، تب اسے کام سونپ دیتا۔ وہ ہر ایک کو ایک ہی کام کروانے والوں میں سے نہیں تھا۔ وہ سنگتوں سے وہی کام کرنے کو کہتا جس میں آنے والے سنگت خود کو پرفیکٹ سمجھتا یا جس کا ہنر رکھتا تھا۔

اپنی آخری گولی تک دل جان و بارگ دشمن سے لڑتے رہے اور دشمن کو بتا دیا کہ یہ جنگ ایک آزادی کی جنگ ہے، جو کئی سالوں سے چلتی رہی ہے اور جب تک ہماری آخری سانس ہے ہم بلوچستان کی آزادی تک اور آخری تیر تک لڑتے رہیں گے۔ آج ہمارے درمیان دلجان و بارگ تو نہیں ہیں، مگر جو سوچ انہوں نے آنے والی نسل کو دی۔ جو ہتھیار اور قلم انہوں نے آنے والی نسل کے ہاتھوں میں تھما دی، اسکے ذریعے ہمیں دشمن کو بتا دینا ہے کہ دلجان و بارگ آج بھی زندہ ہیں۔

زہری سمیت بلوچستان بھر کے نوجوانوں کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ جن شہیدوں نے ہمارے کل کے لیئے اپنے آج کو قربان کیا، جس عظیم مقصد کے لیئے انہوں نے پہاڑوں کا رخ کیا، یہ سب انہوں نے بلوچ قوم کو غلامی سے نجات دلانے کے لیئے کیا۔ تو آج یہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ ان کے اس کاروان کو آگے لے جائیں، یہ عہد کر کے چلیں کہ ہم بھی آخری گولی تک دشمن سے لڑیں گے اس وطن کی آزادی تک لڑتے رہیں گے۔