نیشنلزم اور اشتراک عمل – شیہک بلوچ

283

نیشنلزم اور اشتراک عمل

تحریر: شیہک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ : کالم 

 

پشتون نیشنلزم کی حالیہ لہر جہاں خوش آئند ہے، وہیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ منظور پشتین سمیت پی ٹی ایم کی لیڈر شپ اپنی تحریک کو کس طرح مزید منظم کرتے ہیں۔ گو کہ ابتداء اچھی ہے، نوجوانوں میں جذبہ ہے اور دو سو سالوں سے سامراجی جبر کا شکار ہونے والے پشتونوں میں نیشنلزم کی شدید پیاس کا اظہار ہورہا ہے لیکن یہ تحریک جیسے آگے بڑھیگی چیلنجز بھی اتنے ہی پیچیدہ سامنے آئینگے جس کے لیئے لیڈر شپ کو تیار رہنا ہوگا۔

ریاست اس تحریک کو dilute کرنے اور نیشنلزم سے گمراہ کرنے کے لیئے نت نئے حربے استعمال کریگی، کہیں لالچ تو کہیں جبر لیکن آخری حد تک تحریک کو اپاہج بنانے کی کوشش کی جائیگی کیونکہ یہ ابھار جس دن منظم تحریک کی صورت اختیار کرگیا تب ریاست کے لیے زہر قاتل ہوگا۔

مسلسل ریاستی جبر اور مذہبی جھتوں کے آگے بےبس پشتون جنہیں جنگی جرائم کی آگ میں جھونک کر انسانی عزت نفس جیسے بنیادی حق سے بیگانہ کردیا گیا اور ان کے روایتی رہنماوں نے انہیں بہترین غلام ثابت کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑا۔ پشتونخواملی عوامی پارٹی کی گمراہ کن سیاست ہو یا اے این پی کی مصلحت پسندانہ سیاست، جہاں پشتون کو ہمیشہ گمراہ کیا گیا۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے تو کبھی بھی پشتون عوام کو بلوچ عوام کے شانہ بشانہ کھڑا کرنے کی کوشش نہیں کی اسکے برعکس ہمیشہ مد مقابل لاکھڑا کرنے کی کوشش کی اور ریاستی الیکشن میں چند سیٹیں جیتنے کے لیئے شاونزم کا اظہار کیا حالانکہ بلوچ از خود ریاستی جبر کا شکار رہا ہے، تو ایسے میں بلوچ گلزمین پر دعویٰ صرف نفرت کی بنیاد پر کس طرح دانشمندانہ عمل ہوسکتا ہے، جبکہ تاریخی پشتون گلزمین کو بلوچ ہمیشہ سے تسلیم کرتا آیا ہے۔ اب جبکہ حقیقی طور پر پشتون نیشنلزم کا ابھار سامنے آیا ہے تو اسے survive کرنے کے لیئے بلوچ و سندھی کیساتھ ملنا ہوگا اور ایک واضح منظم مشترکہ سیاسی پروگرام ترتیب دینا ہوگا۔

آج منظور پشتین روشنی کی ایک کرن بن چکے ہیں اور ان کو مستقبل میں اپنا کردار پختگی سے ادا کرنا ہوگا کیونکہ لیڈر قوم کے لیئے نجات فراہم کرنے والا بھی ہوسکتا ہے اور غلامی کو دوام لیڈر کی غلطیاں فراہم کرسکتی ہیں لیکن اب شاید پشتون قوم غلامی کو مزید برداشت کرنے کے حالت میں نہیں کیونکہ ان کو ایک ایسے آگ میں جھونکا گیا، جو انکی نہیں تھی اور ماسوائے تباہی کے کچھ بھی حاصل نہیں ہوا لیکن اب جب نیشنلزم کی بیداری آگئی ہے تو مستقبل میں بہتری کی امید کافی حد تک واضح ہے اور جس حد تک بلوچ، پشتون اور سندھی اپنے جدوجہد میں اشتراک عمل پیدا کرینگے اسی حد تک ان کی جدوجہد کامیابی سے آگے بڑھے گی اور نقصان کم ہوگا۔

ہم انسانیت پر یقین رکھتے ہیں اور غلامی کے خلاف سب سے پہلے بغاوت علم بلند بلوچ نے کیا ہے اور پختہ ایمان کے آخری حد تک بلوچ جہدکار غلامی کے خلاف جدوجہد کو جاری رکھیں گے اور ہم پشتون نیشنلزم کے حالیہ ابھار پر دلی مسرت کا اظہار کرتے ہیں بلکہ امید کرتے ہیں کہ بلوچ پشتون اور سندھی ملکر مشترکہ دشمن کے خلاف جدوجہد کرینگے اور انسانی اقدار کی بنیاد پر ایک دوسرے کو سپورٹ کرینگے۔