تعلیمِ بلوچستان – خالدہ جلال بلوچ

227

تعلیمِ بلوچستان

تحریر :خالدہ جلال بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ : کالم

تاریخی حوالے سے دیکھا جائے تو کئی کتابوں میں ہمیں یہ بات واضح لکھی نظر آتی ہے کہ کسی بھی قوم پر حکمرانی کرنی ہو یا اسے حلقہ بگوش (غلام بنانا ) کرنا ہو تو سب سے پہلے اسے کمزور کرنا ہو گا اور بے شک کسی بھی قوم کو کمزور کرنے کی سب سے پہلی کڑی اسے تعلیم سے محروم رکھنا ہے، کیونکہ تعلیم ہی وہ واحد ذریعہ اور طاقت ہے، جو انسان کو انسان بناتی ہے ,اسے باشعور کرتی ہے ,اسے صحیح اور غلط کی پہچان کراتی ہے، اسے حقیقت اور دکھاوے کی سچائی کو سمجھنے کی قابلیت بخشتی ہے ۔ تعلیم ہی وہ واحد طاقت ہے جو انسان کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ کسی بھی ظلم کا مستقل مزاجی و استقلال سے خاتمہ کرسکیں۔ تعلیم محض مردوں کی ہی نہیں بلکہ خواتین کیلئے بھی اتنی ہی ضروری ہے۔

حقیقت بھی یہی ہے کہ دنيا کے ہر کونے میں آج بھی ظلم و جبر ,بربریت,جارحیت ,ناانصافی جیسے اندھیروں اور غیر تہذیب یافتہ ہو نے کی وجہ سے جسمانی و جنسی تشدد جیسے ناگزیر فعال کا خاتمہ علم کی بصارت سے ہی ہوا ہے۔ تعلیم سے منسلک لوگ باشعور ہوتے ہیں اور دشمن کی طرف سے اپنے خلاف رچائے ہوئے ہر طرح کے بخیل اور مطلبی سازبازو منصوبوں کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں, حقیقت سے واقف اور اپنے ساتھ ہونے والے سارے مظالم کی واقفیت رکھتے ہیں ۔ وہ آزاد ذہن کے مالک ہوتے ہیں اور تب ہی تو وہ غلامی کو کسی بھی صورت تسلیم نہیں کر تے۔ وہ جان کی پرواہ کیئے بغیر ظلم کے خلاف سرکشی کرتے ہیں۔

وہ قوم جو تعلیمی حوالے سے عروج پر ہو، اس پر کبھی بھی غلبہ نہیں پایا جاسکتا اور نہ ہی اسے کسی بھی طاقت کی زور پر غلام نہیں بنایا جاسکتا ہے, یہی وجہ ہیکہ ظلم کرنے والے مظلوم کو علم جیسے نور تک رسائی نہیں دیتے۔

بالکل اسی طرح مقبوضہ بلوچستان (جس پر 27مارچ1948ءکو پاکستان نے عسکری طاقت کا استعمال کرکے جبری قبضہ کیا ) کے عوام اور نوجوان نسل کو ریاست پاکستان تعلیم سے محروم رکھ رہا ہے۔ شروع سے ہی بلوچ قوم پاکستانی مظالم کا شکار ہے, جس میں سے ایک ظلم بلوچ قوم کے علمبردار, علماء, پروفیسروں اور اساتذہ کا خاتمہ کرنا ہے۔ سنہ 2013میں یہ جارحیت اپنے عروج پر پہنچی، جب آئے دن کسی ایک معلم/استاد کے ٹارگٹ ہونے کی خبر ملتی (جن کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ استاد تھے, معلم تھے, علم سکھانے والے تھے, لوگوں کی زندگی علم سے روشن کرنے والے چراغ تھے)۔ اس وقت بلوچ قوم اپنا مستقبل تاریکی میں بدلتے دیکھ کر بڑے فکرمند تھے اور اپنے چراغوں کو بجھتے دیکھ کر شدید غمگین بھی۔

ہمیں یاد ہے جب خضدار (ضلع بلوچستان ) کے مقیم پروفیسر عبدالرزاق کو ہر دو دن بعد کچھ نامعلوم مسلح افراد آکر ان کے تعلیم گاہ(نیشنل سائنس اکیڈمی ) کو ہمیشہ کے لئے بند کر نے کی دھمکی دیتے۔ پھر بجائے اسکے کہ انکے ماتھے پر خوف کا شکنیں پڑتیں, وہ مسکراتے چہرے کے ساتھ ہمیں آکر بتاتے کہ کسطرح وہ انہیں رضاکارانہ ہاں کہہ کر بھیج دیتے ہیں، مگر انکی دھمکی سے کبھی ڈرے نہیں اور مستقل مزاجی سے اپنی ذمہ داری سرانجام دیتے رہے۔ وہ ہمیشہ کہا کرتے کہ تم لوگ تعلیمی حوالے سے کسی کھڈے میں گرے پڑے ہو اور میں تم لوگوں کو اس کھڈے سے نکالنے کی کوشش کررہا ہوں۔ مگر بلوچ طلباء اتنےخوش نصیب کہاں تھے کہ ایک مثالی تعلیم حاصل کرپاتے۔

اپنی ذمہ داریوں پر ثابت قدم رہنے والے یہ ماہر پروفیسر بھی اس ظلم کا شکار بنے اور خضدار کے طالبعلم ایک بار پھر اس کھڈے میں گر پڑے۔ یقیناً بلوچستان کے ہر کونے میں آج تک جاری رہنے والے، ان جارحانہ مظالم کا شکار بننے والے سارے اساتذہ اسی طرح اپنی ذمہ داری پر ثابت قدم رہے ہونگے۔ پھر وہ تو شہید ہوکر امر ہوگئے، مگر دشمن زندہ ہے ایک ہارے ہوئے انسان کی طرح۔

پاکستانی ریاست نہ صرف بلوچ اساتذہ کے قتل کا ذمہ دار ہے بلکہ بلوچستان کے ضلعوں جیسے خاران, پنجگور, آواران, کیچ سمیت کئی دیگر ضلعوں میں قائم اسکولوں اور کالجوں پر قبضہ کرکے انہیں اپنے آرمی کیمپوں میں تبدیل کرکے بلوچ طلباء کو علم سے محروم رکھ چکا ہے۔

ہمارے تعلیمی نظام پر سیاسی طریقے سے قابو پاچکے ہیں۔ بلوچ طلباء کو تاریخ سے دور رکھ چکے ہیں، کیونکہ دشمن (بلوچ قوم انکے لئے ایک دشمن ہی ہے ) کو تاریخ سے دور کرنا ایسا ہی ہے جیسے اسے نہتا کرنا۔ اگر تاریخ پڑھائی بھی جاتی ہے تو تاریخ انہیں مسخ کرکے پڑھائی جاتی ہے۔ انہیں آہستہ آہستہ وہ اصول سکھائے جاتے ہیں جو دشمن کو دوست جتاتے ہیں۔ انہیں بتایا جاتا ہیکہ لڑنا جگھڑنا بری بات ہے اور خاموشی سے بات مان لینے میں ہی بہتری ہے۔ اہم علوم اور جدید ریسرچ سے طالبعلموں کو بالکل دور رکھتے ہیں, مالیات اور معاشیات جیسے مضامین میں کنفیوژن کی بھرمار کردی جاتی ہے۔ تاریخ میں طلباء کو بڑے بڑے لیڈروں ( علامہ محمد اقبال ,سرسید احمد خان وغیرہ ) اور سرمایہ داروں کے حق میں وہ پڑھایا جاتا ہے جو حقیقت سے زیادہ جھوٹ پر مبنی ہوتی ہے۔ انکے بڑے بڑے مثبت کارنامے بیان کیئے جاتے ہیں، جو طلباء کے اندر انکے لیئے شدید عزت و احترام اور چاہت پیدا کرتی ہے (جسکے مستحق وہ حقیقت میں ہوتے ہی نہیں ہیں)۔

مگر کبھی بھی یہ بیان کیا ہوا نظر نہیں آتا کہ ہمارے اس غلامی کے پیچھے ان ہی کا ہاتھ ہے, ہماری آزادی چھین کر ہمیں غلامی کی زنجیروں میں باندھنے والے بھی یہی وہ لیڈر ہیں۔ یہی وجہ ہیکہ کچھ عرصہ (کوئی 6/7سال ) پہلے بلوچ آزادی پسند تنظیم (BSO-Azad) نے سوشل اسٹڈیز پر بین لگا دی تھی تاکہ دشمن کے منصوبے کو ناکام کرسکیں۔ مگر آج پھر وہ سلسلہ جاری ہے۔

تعلیم سے دوری کی وجہ سے آج بلوچ قوم حقیقت کے علم سے ناواقف ہے اور پھر علم سے دوری تو غلامی کی مہر مثبت کردیتی ہے۔ دشمن کے بنائے ہوئے منصوبے اس وقت بڑی آسانی سے کامیابی پاتے ہیں جب ایک قوم میں لوگوں کی اکثریت غیر تعلیم یافتہ, بےفکر , سمجھ بوجھ سے عاری اور حقیقت حال سے بےخبر ہوتی ہے۔ اگر ہم تیار نہیں ہیں کہ اپنی بقا کے لیئے سوچیں اور اپنی بقا کی جدوجہد کے بہترین طریقے سیکھنے کی کوشش کریں، تو پھر ہم کم علمی کی وجہ سے دوسروں کے خیالات اور اقدار اپنا کر دوسروں کے غلام بننے کے خطرے سے دوچار رہتے ہیں۔

اپنے بےبس, ناسمجھ, معصوم اور حقیقت کے علم سے ناواقف بلوچ قوم کو میں یہ تجویز دینا چاہتی ہوں کہ آج کے اس جدید دور میں دشمن کے لئے یہ مشکل ہو چکا ہے اور انتہائی مشکل ہو بھی سکتا ہے کہ وہ کسی بھی قوم کو تعلیم جیسے نور سے محروم رکھ سکیں۔ اگر ہم ٹیکنالوجی سے منسلک ان تمام الیکٹرانک ڈوائسز (جیسے موبائل فون , ٹیبلیٹس ,لیپ ٹاپ وغيرہ ) جو تعلیمی حوالے سے ہمارے لیئے انتہائی کارآمد ثابت ہو سکتے ہیں ,ان سے بھر پور فائدہ اٹھائیں، تو ہماری تعلیم, ہماری قابلیت اور ہماری سوچ کسی ڈگری کا محتاج نہیں ہو گی۔ دنیا میں کامیابی پانے اور اپنے دشمن کی سازشوں کو ناکام کرنے کے لیئے ڈگری ضروری نہیں لیکن تعلیم اور مطالعہ کرنا اول شرط ہے، جو اس جدید دور میں دشمن کے ظلم کی وجہ سے اسکول سے نہ صحیح مگر اپنے تعلیم یافتہ خاندان, دوست یا رشتہ دار جیسے فرد سے ضرور حاصل کرسکتے ہیں اور اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ سوشل ویبسائٹس کے ذریعے آپ کسی بھی طرح کا مطالعہ کرسکتے ہیں اور اس سے دشمن آپکو ہرگز روک نہیں سکتا۔

تعلیم سے منسلک تمام دشواریوں کا پوری بہادری اور حوصلے سے سامنا کریں اور اپنے دشمن کے اس منصوبے کو ناکام بنا کر, تعلیم کواپنا ہتھیار بنا کر غلامی کے ان زنجیروں کو ہمیشہ کے لیئے توڑ دیں۔