ہمارا سُقراط و گورکی سنگت دلجان – کوہ دل بلوچ

568

ہمارا سُقراط و گورکی سنگت دلجان

تحریر: کوہ دل بلوچ

(دی بلوچستان پوسٹ)

سُقراط جب بھی اپنے قریبی ساتھی کے ساتھ ایتھینا کے گلیوں میں گھومنے جاتے تو اس کو اکثر سنگ تراشوں کے پاس لے جاکر کہتا دیکھو پتھر سے یہ شاہکار کس قدر ایک خوبصورت بےجان شریر کو اپنے چھینی اور ہتھوڑے سے آزاد کر دیتے ہے، کتنے خوبصورت چہرے کو اپنے ہنر و فن سے تراش کر ہم لوگوں کو ہیجان میں ڈال دیتے ہیں، لیکن آپ نے کبھی یہ سوچا ہے کہ اتنے خوبصورتیوں کو سامنے لانے والے ان سنگ تراشوں کے اندر کس قدر حُسن کی تڑپ ہوگی، اس قدر قدرت نے ان کو اس ہنر کا اعزاز بخشا ہیکہ ایک بےجان پتھر کو کتنا قیمتی بنادیتے ہیں۔

یہ ان کا فلسفہ تھا جنہوں نے ایتھنز کو درس گاہ بنانے کا ٹھان لیا تھا لیکن ہمارا سُقراط پتھروں کے بستی میں اُن کے اپاہچ ذہنوں کو تراشنے نکلا تھا۔ سنگت کی وہ بات مجھے بار بار سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ “سنگت یہاں کے نوجوانوں میں بہت شعور ہے مگر اِنہیں تراشنے کی ضرورت ہے” تب میں نے سُقراط کو اپنے ہی سرزمین میں پایا اور فخر سے سُر خرو ہوگیا۔

سُقراط کا فلسفہ محض پتھروں میں قید خوبصورتیوں میں تھا، مگر ہمارے سُقراط دلجان کا فلسفہ غلام سماج کے غلام ذہنوں کے دائرے میں گھومتا تھا۔ پتھروں کو تراشنا اور اس میں قید ہستی کو آزاد کرنا شاید آسان ہو مگر کسی زنگ آلود ذہن کو سنوارنا اتنا کھٹن راستہ ہے کہ اپنے دن رات ایک کرکے اس پر کام کرنا ہوتا ہے، جیسے دلجان نے اپنے دن رات اس قوم پر خرچ کرکے اپنا سارا فلسفہ چھوڑ کر امر ہو گیا۔

دلجان وہ فلسفی تھا جس کا گھر تباہ ہو رہا تھا، مگر وہ کسی چٹان پر بیٹھ کر آزادی کیلئے راہ ہموار کرنے کا حکمت عملی بنا رہا تھا۔ دلجان اور بارگ یونان کے اناکساغورث کو زہری میں ڈھونڈنے آئے تھے اور مجھے یقین ہے ان کی محنت و کاوشوں پر زہری کے کہیں اناکساغورث ان جانبازوں کے بحث و مباحثے کا حصہ بن گئے ہوں گے۔

دلجان و بارگ جب تراسانی کے قریب پہنچ کر بلند پہاڑی کے کسی کونے میں پتھر پر ٹیک لگائے بیٹھ کر باداموں کی سفید پھولوں بھریں درختوں کی شاخیں، زمینوں میں ہل چلاتے زمیندار، مٹی میں کھیلتے ہوئے بچے، روڈ سے آتے جاتے گاڑیاں، موسم کے سختیوں سے گرتے ہوئے درختوں کے پیلے پتے اور درختوں کی چھینے ہوئے خوبصورتی کا یہ سارا منظر دیکھ کر کیا کچھ سوچ رہے ہوں گے، اپنے اندر ایک آزاد وطن کا تصور لیئے تھوڑی دیر کیلئے ماضی کے سارے غم و خواری اور تکلیفوں کو بھلاکر کس قدر تسکین میں کھو گئے ہوں گے۔

جب قلات سے زہری کیلئے روانہ ہونگے تو کتنے خانہ بدوشوں کے زندگیوں پر سوچ کر اندر ہی اندر تڑپ محسوس کیئے ہوں گے، سوئندہ کے آب جُو سے ٹھنڈا پانی پی کر اندر کے زخموں پر درمان محسوس کیئے ہوں گے، بارگ نے جب زہری کے متعلق کچھ پوچھا ہوگا تو ہمارا سُقراط دلجان کس ادا سے ہاتھ ہوا میں ہلاکر اس دھرتی کے ہر خوبصورتی پر نازاں ہوگا۔

جب دلجان و بارگ شہر کے قریب قیام کرنے کا سوچیں ہونگے، تو اس شو پیس سماج میں انہیں کیا مہیا ہوگا محض چند کلو میٹر شہر سے فاصلے پر ایک مسجد یا لُمہ وطن کے دامن میں پھیلائے ہوئے بُلند و بالا کوہ و جبل یا شاہ موز و سوئندہ کا ندی،دلجان و بارگ پنجاب کے کسی پیشوا کے کاروان سے تھوڑی تھے جن کیلئے ہر شے پُہنچانا ثواب تصور کیا جاتا۔

دلجان و بارگ نوروز و بھاول اور امتیاز کے کاروان سے تھے جن کیلئے یہ شہر حقیقت میں اپنا مگر اجنبی اُنہیں تصور ہوا ہوگا، جب اُن کو اس شہر میں کسی نے محبت بھرا سلام دیا ہوگا تو خوشی سے ان کے پیروں تلے زمین نکل گیا ہوگا کیونکہ دلجان جب اس علاقے میں کسی سے مل کر واپس لوٹتا تو اس کے خوشی کی انتہا نہیں ہوتی جیسے اس نے سارے قوم کو اکھٹا کیا ہو۔

سنگت دلجان اکثر کہا کرتا تھا، سنگت ہم تو اپنے بساط کے مطابق ہر جگہ اُن وطن پرستوں کو ڈھونڈنے کی کوشش میں ہیں جن کے سینے میں تھوڑا سا بھی وطن کیلئےمحبت ہے، ہم وہاں جاکر ان کو تراشتے ہیں ان کے جذبات کی قدر کرتے ہیں، آپ بھی سنگتوں کے ہمراہ اسی عمل میں مصروف ہوجائیں لیکن آج میں اپنے کردار پر نظر ڈال کر سنگت دلجان اور بارگ کے جدوجہد کو دیکھتا ہوں تو مجھے دلجان سے ہزار گلہ کرنے کو دل کرتا ہے کہ کہاں آپ کی محنت آپ کی جہدء مسلسل کہاں میرے بہانوں سے بھرا کردار؟ مگر سنگت آج ہمارے درمیان میں نہیں کہ اس کے قریب بیٹھ کر اُسے کہتا کہ آپ سُقراط ہو آپ گورکی ہو مگر مجھ جیسے تاویل اور بہانوں سے لادے ہوئے شخص کو کیسے نہیں پہچانا……؟ یا یہ بھی آپ کی وہ شاہکاری ہے جس سے ہم غافل ہیں۔

دلجان ہمارا فلاسفر تھا ہمارا اُستاد، مفکر، قلم کار اور ہمارا لکھاری تھا جب دلجان کے لکھے افسانوں کو پڑھتا ہوں ایسا لگتا ہے کہ گورکی کے افسانوں کا مہک ان میں سمایا ہوا ہے۔ ماں، انقلاب، آزادی، قوتِ فیصلہ، وطن دوستی اور سنگتی پر لکھے دلجان کے ہر الفاظ سے گورکی کے افسانوں کا تمثیل محسوس ہوتا ہے۔

دنیا کے تمام عظیم ہستیوں کی کردار آپ نے ادا کیا ہے، اے سنگت دلجان مجھ جیسے ادنیٰ لکھاری آپ کے شان میں کیا لکھ پائےگا…؟