ایران کے اعلیٰ جج کو قیدیوں کی ہلاکت پر قید کی سزا

208

ایرانی دارالحکومت میں عدالت نے تہران کے سابق جنرل پراسیکوٹر جسٹس سعید مرتضوی کو دو سال قید کی سزا سنائی ہے۔ مرتضوی پر 2009 کی عوامی مزاحمتی تحریک کے دو گرفتار شدگان کی ہلاکت کے علاوہ قیدیوں کے ساتھ زیادتی کا علم ہونے جیسے معاملات میں ملوث ہونے کےالزامات تھے۔

ایران میں انسانی حقوق کی بین الاقوامی مہم نے دونوں ہلاک شدگان قیدیوں محمد کامرانی اور محسن روح الامینی کے وکیل کے حوالے سے بتایا ہے کہ جسٹس مرتضوی کی دو سالہ قید کا فیصلہ حتمی ہے۔ مذکورہ دونوں قیدی 2009 میں کہریزک کی جیل میں تشدد کے باعث فوت ہوئے تھے۔

ابتدائی طور پر مرتضوی کو پانچ برس قید کی سزا سنائی گئی تھی تاہم عدالت کے حالیہ فیصلے میں اس کو دو برس کر دیا گیا۔
مرتضوی نے ایک کھلے خط میں کہریزک جیل کے قیدیوں کے اہل خانہ سے معافی مانگی تھی تاہم ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا کہ دونوں قیدیوں کی ہلاکت دانستہ طور پر نہیں ہوئی۔

سعید مرتضوی کو مظاہرین کی زیر حراست تشدد کے باعث ہلاکتوں کے بعد 2010 میں اس کے منصب سے سبک دوش کر دیا گیا تھا۔ تاہم اسے سوشل سکیورٹی کے ادارے کی سربراہی سونپ دی گئی جہاں اسے بدعنوانی اور غبن کے ارتکاب کا ملزم ٹھہرایا جاتا ہے۔

مرتضوی سابق صدر محمود احمدی نژاد کے قریب ترین معاونین میں سے ہے۔ ہیومن رائٹس واچ سمیت انسانی حقوق کی تنظیمیں اس کو ایران میں انسانی حقوق کی سب سے زیادہ پامالی کرنے والا شخص قرار دیتی ہیں۔

امریکا کی جانب سے بھی اسے نجاد حکومت کے دیگر ذمے داروں کے ساتھ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا ملزم ٹھہرایا جاتا ہے۔ وہ انسانی حقوق سے متعلق واشنگٹن اور یورپی یونین کی پابندیوں کی فہرستوں میں شامل ہے۔

ایران میں انسانی حقوق کی بین الاقوامی مہم کے کا کہنا ہے کہ 2009 کی انتفاضہ تحریک کے دوران حراست میں لیے جانے والے قیدیوں میں سے 53 کے اہل خانہ مرتضوی کو ان کے بیٹوں کے خلاف تشدد اور زیادتی کے واقعات میں ملوث ہونے کا مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔

ایرانی مسلح افواج کے عدالتی شعبے کے سربراہ شکر اللہ بہرامی یہ انکشاف کر چکے ہیں کہ 104 قیدیوں کو اُس وقت تشدد کا نشانہ بنایا گیا جنہوں نے سرکاری طور پر شکایت بھی پیش کی۔