بلوچستان نامہ – شاہ جہان بلوچ

371

بلوچستان نامہ

تحریر: شاہ جہان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان کی سیاسی آگہی و اسکے قدرتی وسائل اسکے دو مضبوط ستون بھی ہیں اور عوام کیلئے وبال جان بھی کیونکہ دونوں کی وجہ سے عوام کو اور خاص کر سیاسی و سماجی کارکنوں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کو نہ صرف مشکلات بلکہ قید و بند اور حتیٰ کہ سالوں کی گمشدگی اور جان سے ہاتھ دھو بیٹھنا تک شامل ہے جسے سب سے زیادہ متاثر والدین ہوتے ہیں جو برسوں اپنے پیاروں کی تلاش، اطلاع اور زندہ لوٹ جانے کی امیدیں، درد بھری آس لگائے بیٹھے ہیں۔ ان میں ہفتوں سے لیکر کئی سالوں اور دہائیوں تک کے متاثرین شامل ہیں۔

اس دوران کئی سماجی تحریکوں نے بھِی جنم لیا اور خصوصاً بلوچستان میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز رہنمائی کی جسکی قیادت ماما قدیر بلوچ، نصراللہ بلوچ، حوران بلوچ و ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی سمی دین بلوچ کررہی ہے۔ ایک مسنگ پرسنز جوکہ بظاہر ایک ٹِنٹ اور کچھ بلوچ مسنگ پرسزن کی تصویروں کا منظر پیش کرتا ہے۔ حقیقتاً یہ کیمپ بلوچ کی بات کو ٹوکے اور روکے بغیر ایک احترام اور درد کے جذبے کیساتھ سنا جاتا ہے۔ یہ وہ آستانہ ہے جہاں مجبور، مایوس اور بے بس مائیں اپنے اوپر بیٹی آپ بیٹی کی داستان لے کر آتی ہے اور فرق یہ ہے کہ داستان سننے اور سنانے والے ایک ہی درد اور ظلم کا شکار ہیں۔ اس لیے اس میں خلوص سچائی اور حقیقی ہمدردی کا عنصر نمایاں ہوتا ہے اور تمام متاثرین ایک دوسرے کیلئے جدوجہد، صبر، امید اور مزاحمت کی توانائی ہوتے ہیں۔

ان سب کا تعلق ایک ایسے لشکر حسین سے ہے جن کے فرزندوں، پیاروں اور جان سے عزیز جگر کے ٹکڑوں کو اس بات کی سزا دی گئی یا دی جارہی ہے کہ وہ ایک مختلف خیال و نظریہ رکھتے ہیں اور اسکا اظہار کرنے یا صرف شک کی بنیاد پر پابند سلاسل کرکے ان کو اور انکی خدانوں کو سزا دی جارہی ہے کہ تاکہ وہ دوسروں کیلئے مثال نہیں اور ریاست سامراجی آمریت پر مبنی نام نہاد قوتیں کا جوز بناکر اپنے ہی ملک کے شہریوں کو زندہ درگور کرنے کی شرمناک عمل کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس سارے گھناونے عمل کا شکار بیشتر نوجوان ہیں کیونکہ نوجوانوں میں ہی تبدیلی، شعور اور نا انصافی کے خلاف آواز اٹھانے کا بھر پور جذبہ ہوتا ہے، حقیقتاً نوجوان تو کسی بھی معاشرے کا اہم حصہ اور سرمایہ ہوئے ہیں اور ان کو بہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ کیسا مستقبل چاہتے ہیں اور کس اقدار پر مبنی معاشرے کی خوابوں کی تکمیل ہے۔

بلوچستان میں نوجوانوں کے سیاسی شعور کا سہرا بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن بی-ایس-او کو جاتا ہے اور اسکی وجہ سے اب بھی کثیر تعداد بی ایس او کے نوجوان ہی ہیں جو کہ جبری گمشدگی اور ریاستی جبر کا شکار ہیں اور اب ریاستی ادارے جو بظاہر ایک نئے نام کاونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (CTD) سے تشکیل دیئے گئے وہی کام جاری رکھے ہوئے ہیں اور اب ٹیررازم کے نام پر اسکا زیادہ دباو سیاسی کارکنوں کی تشدد کا نشانہ بنانا اور خوف و ہراس پھیلانا اس حکمت عملی کا حصہ بنا جسکی وجہ سے شدت پسندانہ رجحانات کو مزید فروغ ملے اور بلا وجہ اپنے اختیارات سے تجاوز کرکے مختلف طریقوں سے عوامی رائے عامہ و میڈیا کو یہ باور کرانا کہ وہ واقعی دہشت گردی کے خلاف محاذ آراء ہیں۔ ملک میں اس طرح کے محکموں کی شفافیت، کارکردگی اور جوابدہی ہمیشہ ایک سوالیہ نشان رہی ہے اور یہ مذکورہ محکمہ اب ایک بلوچ کش ادارے کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے جوکہ ایک شورش زدہ علاقے میں آگ پر تیل کا کام سرانجام دے رہی ہے اس لیے حکمران ہوش کے ناخن لیں۔

بلوچستان کے تناظر میں دیکھا جائے تو حفیظ بلوچ جوکہ اسلام آباد میں ایک یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے تھے، کو لیکر اس محکمہ نے مہم چلائی کہ بلوچ نوجوان طالب علم دہشت گرد ہیں اور بعد میں حفیظ بلوچ عدالتی کاروائی کے ذریعے رہا ہوئے اور حال ہی میں مائل بلوچ کا کیس بھی کافی میڈیا میں اُچھالا گیا۔ پہلے اسے دو بچوں سمیت گرفتار کیا گیا اور کچھ عرصہ اس کو تحویل میں رکھنے کے بعد سوشل میڈیا میں بیان جاری کروایا گیا کہ وہ راہ دے بھٹک گئی تھی، مطلب اس سے غلطی ہوئی اور اب وہ ایک پرامن شہری بن کر اپنے بچوں کے روشن مستقبل کیلئے زندگی گذارے گی۔ اور اس دوران نام نہاد کردار شرب خان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس پوری کہانی کے جو رنگ مشکوک ہیں وہ سمجھدار اور قانون سے آگاہی رکھنے والوں کیلئے بڑی نشانیاں ہیں کیونکہ قانوناً تمام قانونی کاروائیوں کو مکمل کیے بغیر کسی بھی طرح سے جب ملزم تحویل میں ہو اسکو میڈیا پر نشر کرنا ایک غیراخلاقی عمل ہے جسکی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہوگی اور کسی بھی خاندان کے مرد حضرات کی سیاسی وابسطگیوں اور نظریات اور عمل کے سزا اسکے خاندان والوں کو دینا ناانصافی کی بات ہے۔

جہاں تک ماہل بلوچ کے میڈیا بیان کا تعلق ہے اسکی غیر قانون گرفتاری اور اس عمل کے خلاف عالمی حقوق کے معروف ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے گذشتہ دنوں اسکی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ مائل بلوچ کو عالمی انسانی حقوق کے قوانین کے تحت اسکے قانونی اور انسانی حقوق کی پاسداری کی جائے تاکہ ماء کو اپنے اوپر لگائے جانے والے الزامات کے خلاف بلاخوف قانونی دفاع کا آزادانہ حق اور زمانت پر رہائی مل سکے۔ اس سلسلے میں ایک دستخطی مہم Pakistan-End arbitrary detention of Mahal Baloch بھی شروع کیا گیا ہے۔ تمام انسانی حقوق کے کارکنوں اور سیاسی پارٹیوں کے اراکین سے گزارش ہے کہ اس آن لائن مہم میں حصہ لیں۔

اسکی بہتر حکمت عملی نواب ثناء اللہ کی حکومت میں منظرعام پر آئی جہاں انہوں نے ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کی اہلیہ اور انکے بچوں کو بلوچی رسم و رواج کے مطابق سرپر چادر چڑھا کر عزت اور احترام سے اپنے گھر روانہ کیا اور ان کو کسی بھی قسم کی عدالت اور میڈیا ٹرائل میں نہیں گذارا۔ امید ہے کہ یہ حکومت بھی انسانی اور علاقائی قدروں کی پاسداری کرتے ہوئے مائل بلوچ کو باعزت اپنے گھر روانہ کرے گی اور اسکا مزدی میڈیا ٹرائل نہیں کرے گی۔ اس کے لیے تمام قوم پرست اور بلوچ دوست قوتوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور خاص طور پر پی ڈی ایم اور اسکے اتحادیوں کو اپنے دعووں کو یاد رکھنا چاہیے جس میں سب سے اہم بلوچستان میں امن اور لاپتہ افراد کی بازیابی ہے۔
ورنہ ایک ایسی مہم شروع ہوگی جس کا شکار تمام قوم پرست جماعتوں کے تہنماء اور کارکن ہونگے۔ بلوچستان اب بھی مثبت روایتوں کی امین سرزمین ہے جہاں خواتین کے عزت اور احترام کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور وہ قوتیں جو بروقت بلوچ عوام کی عزت نفس، شناخت اور حقوق کیلئے جہد کررہی ہے۔ وہ ہر اس عمل کی بھرپور اور مستقل مزاجی کی بنیاد پر خصوصاً بلوچ خواتین کے حقوق کے تحفظ کو اپنے عمل سے یقینی بنائیں۔

گذشتہ دنوں خضدار سے اس نام نہاد محکمہ نے پانچ مزید نوجوانوں کی جبراً اپنے تحویل میں لیا ہے جس کے بارے میں صوبائی اسمبلی کے ممبر اکبر مینگل نے اسمبلی کے فلور پر بھی آواز اٹھایا اور اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو یہ محکمہ بلا کسی خوف اور جوابدہی کے بلوچ خواتین اور نوجوانوں کی جبری لاپتہ کرنے کا سلسلہ جاری رکھے گا جسکے نتائج کی طرح سے بھی مثبت نہیں ہونگے اور کسی بھی قسم کا ردعمل شدت پسندی کو فروغ دے گا اور اب 27 مارچ کو ایک ٹوئٹر کمپئن کا اعلان کیا گیا ہے جس میں خضدار سے گذشتہ 14 سال سے لاپتہ کبیر بلوچ، عطاء اللہ بلوچ، مشتاق بلوچ اپنے پیاروں کی تصاویر کیساتھ پر فورم پر احتجاج کرتی نظر آتی ہے۔ متاثرین کا اس حد تک کیا ہے کہ اگر کوئی جرم ثابت ہوا ہے تو ان کے بچوں کو سزا دی جائے، کورٹ میں پیش کیا جائے لیکن اس دردناک اذیت سے نجات دلائی جائے جس کا وہ سال کے 365 دن شکار رہتے ہیں اور ایک امید و نا امیدی کے دور سے انکی سانسیں جڑی ہوتی ہیں۔ خدارا، ان لواحقین کی آواز کو سنا جائے اور ان کو انکے پیاروں کے بارے میں معلومات فراہم کی جائے جوکہ ان کا بنیادی و قانونی حق ہے۔

بلوچ مسنگ پرسنز کا معاملہ جتنا پیچیدہ ہو لیکن اسکی بنیادی، قانونی و عالمی قوانین کی روشنی اور انسانی حقوق کے تناظر میں سلجھایا جاسکتا ہے۔ بنیادی بات حکومت وقت کے اس معاملے کے بارے میں سچے اوراک، اپنے دعووں کا پاس بلوچستان میں حقیقی امن کی آشا اور عسکری قوتوں کے حکمت عملی کی ہے کیونکہ بلوچستان کا مسئلہ ایک سیاسی مسئلہ ہے اور اسکا حل سیاسی حکمعت و دانس سے ہی ممکن ہوسکتا ہے اس پر پیش رفت کیلئے ایک سنجیدہ قدم اس رمضان المبارک میں بلوچستان کے سیاسی قیدیوں کی رہائی اور جبری گمشدگی کو ختم کرنے کے اعلان سے کیا جاسکتا ہے۔ اس عمل سے بلوچ مسنگ پرسن کے کیمپ جوکہ ایک “آستانہ امید” کے باسیوں کے چہروں پر خوشی ہوگی اور وہ بھی یہ عید اپنے پیاروں کے ساتھ مناسکیں گے۔
مست توکلی نے کہا تھا؛
جوان نہ انت جنگ آن بدے بولی
کئے وتی دوستیں مردم آ رولی


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں