اندھے کے بچے کو اندھا رہنے دو
عمران بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
انسانی تاریخ اور تجربہ سکھاتے ہیں کہ اپنی اچھائیوں اور صلاحیتوں کو دیکھنا، جاننا اور پرکھنا ہے تو خود کو آئینے میں دیکھیں یا پھر اچھے استاد وفادار دوست اور سب سے بڑھ کر والدہ کی نظروں سے دیکھیں، کیونکہ اصل آئینہ والدہ کی آنکھیں ہوتی ہیں اس کے بعد گل زمین جو عمل اور کردار کا تعین کرکے انسان کو ایک منزل دکھاتی ہے لہٰذا اچھے فرزند کے لئے ضروری ہے کہ وہ بھی اسی راستے کا انتخاب کرکے فرمانبرداری کا مظاہرہ کرے کیونکہ اصل ماں تو سر زمین ہی ہوتی ہے، قدرت نے بھی ان دو ماؤں کا کیا کمال تعلق بنایا ہے ایک جنم دیتی ہے تو دوسری تا قیامت اپنی آغوش میں سلادیتی ہے ایک کے کوکھ میں سات سے نو ماہ رہنا پڑتا ہے تو دوسری ان گنت صدیوں تک اپنے پہلو میں جگہ دیتی ہے۔
اگر خود کو ناکام برباد دیکھنا ہے تو پھر دشمن کی نظروں سے دیکھ لو، آج کل بلوچ من حیث القوم ایک ایسی ہی صورت حال سے دو چار ہے، کیونکہ جو دھرتی ماں ہے وہ مقبوضہ ہے ، مفلوج ہے، تار تار ہے ، زخمی ہے مگر پھر بھی کہتی ہے میں تم لوگوں کے لئے سونے کی چڑیا ہوں لیکن أج مجھے تم لوگوں کی اشد ضرورت ہے مجھے سنبھالو ، بچاو مجھے، وہ روتی ہے چلاتی ہے ، گوادر ، سوئی ، سیندک اور ریکوڈک کی صورت اس کے جسم کے حصے کاٹے جارہے ہیں ، زخمی ہے ، دل خراش ہے کہ ڈاکٹر دین محمد، فیاض بلوچ، عتیق بلوچ، داد جان بلوچ اور ظہیر بلوچ کی صورت اس کے ہزبروں بچے گار و بیگواہ ہیں، أج اس کے سینے پر اسکول کالج یونیورسٹی اور لائبریری بنانے کے بجاۓ اجتمائ قبریں بنائ اور أباد کی جارہیں ہیں۔
اس کے بعد جہاں والدہ اور غیر کی بات ہے دونوں پروپگینڈہ کر رہے ہیں، حقیقی ماں کہتی ہے میرے بچے بہت خوبصورت ہیں، لائق ہیں ، زہین ہیں، غیر تو بہت پہلے سے کہتا تھا یہ قبائلی ہیں ، ان پڑھ گوار ہیں، تعلیم اور ترقی نہیں چاہتے بس تین سرداروں کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن بیٹھے ہیں اور باقی جو تہتر سردار ہیں ان کے علاقوں کو سوئٹزرلینڈ بناکر دودھ اور شید کی نہریں بہائی جارہی ہیں، خیر بلوچ نے یہ مانا کہ شاید ہم ترقی مخالف ، ان پڑھ گوار ہیں تو چلو انھیں ان کی طرح سے پڑھ کے دکھا لیتے ہیں لہذا بلوچ نے اپنا سارا جمع پونجی ، مال مویشی، زمین کا ٹکڑا، والدہ کی زیورات بیچ کر پنجاب، سندھ اور پشاور کے مختلف تعلیمی اداروں میں داخلہ لیکر پڑھنے لگا ، جب بلوچ تعلیم حاصل کرتا گیا , پڑھتا گیا تو کہا جانے لگا کہ جی یہ تو وحشی ہیں دہشت گرد ہیں اور اس بہانے ہر اس بلوچ کو اٹھایا جانے لگا جو فزکس، فلسفہ، لٹریچر سمیت تاریخ کا مطالعہ کرنے اور سمجھنے لگا کیونکہ بلوچ کو یہ بات تو سمجھ أگئی کہ 1952 میں سوئی سے گیس نکلا اور وہ گیس باقی بلوچستان اپنی جگہ سوئی والوں کو أج تک نہیں ملا، جو أئین کے أرٹیکل 161 کی خالص خلاف ورزی ہے، حالانکہ اس وقت کوئیٹہ سمیت باقی بلوچستان کو اس لئے بہانے سے گیس مہیا نہیں کی گئی کےہجی سوئی کی زمین نیچے ہے اور کوئٹہ اونچائی پر ہے لہذا پائپ بچھانا ناممکن ہے اس دوران پنجاب کی گلی کوچوں کو گیس مل چکا تھا پر جب کوہئٹہ کنٹونمنٹ بورڈ کو ضرورت پڑی تو گیس بغیر کسی رکاوٹ کے کوئیٹہ پہنچائی گئ۔
جب تک مشرقی اور مغربی پاکستان اکھٹے تھے تب بجٹ کی تقسیم رقبے کی بنیاد پر کی گئی کیونکہ بنگالی تعداد میں زیادہ تھے لیکن جب بنگلہ دیش الگ ہوا تو بجٹ کی تقسیم أبادی کی بنیاد پر کی گئی کیونکہ پنجاب کی أبادی زیادہ تھی لہذا دونوں صورتوں میں پنجاب کا فائدہ کرنا تھا۔
أج بھی سوئی، سیندک، ریکوڈک اور گوادر کے مالک بارڈر پر در در کی ٹھوکریں کھا کر دو وقت کی روٹی کے لئے محتاج بنا لئے گئے ہیں اور ٹوکن کے نام پر ان کی تزلیل کی جاتی ہے یا پھر دالبندین کی طرح مارے جاتے ہیں لیکن ان منصوبوں سے انھیں کوئ فائدہ حاصل نہیں ہوا ہاں البتہ مزدور تک باہر سے لاۓ جاتے ہیں اور جب بلوچ پڑھنے لکھنے لگا تو اس نے یہ جان لیا کہ اس نے مارکس، لینن، پاؤلو فریرے، فینن، جان کے کولی، منڈیلا اور سارتر کو بھی پڑا تو اسے داس کیپیٹل، افتادگان خاک، ہن ہولی وارز سمیت ہر تاریخ اور ہر تحقیق نے غلامی کا جبر کا استحصال کا احساس دلایا۔
بقول کولی ، سارتر اور فینن کے فرانسیسی اکثر الجزائر والوں کو جاہل گوار، ان پڑھ ، قبائلی، تعلیم اور ترقی مخالف کہتے اور لڑیچر بھی چھاپتے تھے، حتی کے یہ تک کہا گیا کہ ان کے رسم رواج سب فرسودہ ہیں لہذا ہم انھیں ترقی تعلیم اور شعور دینگے أخر میں تو بات مذہب کو بدلنے تک آگئی مگر اس دوران عورتوں تک کو اٹھانا ان کی بچہ دانیاں ذندہ حالت میں خنجر سے کاٹنا یہ سب رسل ٹریبونل کا حصہ ہیں، المختصر جب بلوچ کو یہ سب سمجھ أگیا تو اب کہتے ہیں پڑھنے نہیں دینگے واپس جاؤ ، تو بلوچ کہتا ہے پہلے مان لو کہ میرا تہذیب ، تاریخ الگ الگ ہیں تو اٹھا لئے جاتے ہیں اور جواب میں کہا جاتا ہے
” بکری پال بلوچاں”
اور اندھے کے بچے کو اندھا رہنے دو۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں