”پھول تنھنجا نہ مرجھائیجن!“ ۔ محمد خان داؤد

251

”پھول تنھنجا نہ مرجھائیجن!“

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

درد! ایک لکیر نہیں ہوتا کہ کوئی اس لکیر کے اِس پار یا اُس پر کھڑا ہو جائے اور درد سے بچ جائے
درد! کوئی تحریر نہیں کہ کوئی پڑھے یا لپیٹ کر رکھ دے
درد! کوئی مقدس صحیفہ نہیں جس کے لیے دعائیں کی جائیں کہ یہ ہم پر نازل ہو
درد! کوئی مندر کا خوبصورت بھجن نہیں کہ گایا جائے اور دل کے کانوں سے سنا جائے
درد! کوئی محبت کی ندی نہیں جس میں تیرا جائے
درد! تو آہ ہے چیخ ہے
درد! کوئی مہندی لگے ہاتھ نہیں کہ جب ہاتھوں پر مہندی لگے اور ہاتھوں پر تتلیاں آ بیٹھیں
درد تو سسئی ہے جو پہاڑوں میں اتر کر پتھروں سے کہتی ہے کہ
”میری ساتھ رو!“
”ڈونگر مون سین روءِ کڈھی پار پنہوں جا!“
درد! منت ہے سماجت ہے
درد! آنسو ہیں
نمکین آنسو!
درد! سب کچھ بھلا دینا کہ نام ہے اور جو یاد رہ جاتا ہے وہ درد!
درد دن میں سفر اور رات میں رتجگے کا نام ہے
درد! مسافری ہے
پیروں سے لیکر نینوں کی!
درد! رونا ہے
دل سے لیکر آنکھوں کا!
درد! میں مانگ جلد سفید ہو جاتی ہے
اور آکاش میں طلوع ہوتا سورج مانگ میں سندور بن کر ٹھہر جاتا ہے
درد! تو آگ ہے جو سب کچھ جلا دیتی ہے
درد! تو بارش ہے جب برستی ہے تو بس گھروں کو نہیں پر نینوں اور دل کو گیلا گیلا کر جاتی ہے
درد! تو نوحہ ہے پڑھنے والا بھی درد میں اور سننے والا بھی درد میں!
درد! تو ایک سفر ہے بن منزل کے مختصر بھی طویل تر بھی!
ہاں درد! دلاسہ نہیں!
درد یقین نہیں
درد! تو بے یقینی کی کیفیت کا نام ہے
درد! تو درد ہے یہ درد ہی دیتا ہے!

وہ بھی کچھ سال پہلے ایسی ہی درد کی کیفیت میں مبتلا تھی جب ہاتھوں میں گم شدہ بھائیوں کی تصاویر لیے اشک بار ہوتی تھی تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ پورا جگ رو رہا ہے یہ سماں یہ زمیں یہ وقت یہ آکاش یہ سورج یہ چاند یہ دھرتی نہ ندیاں یہ پہاڑ پہاڑوں کی چوٹیوں پر پڑے بے سود پتھر پہاڑوں کے دامنوں میں شہیدوں کی قبریں دشت میں لاوارث، مسخ چہرے، پہاڑوں کے آس پاس آزادی پسند، پہاڑوں کی وادیوں میں کھلی سُرخ رو گلاب میں تو یہ وہ سبھی رو رہے ہیں اس کا رونا، رونا نہ تھا اس کا رونا کوئی سورِ اسرافیل تھا جو سب کو بے سود کر جاتا تھا!
اس وقت اس کا رونا ایسا کیوں تھا وہ درد کی سیمفینی کیوں بنی ہوئی تھی وہ شوپین کا نغمہ یا بھٹائی کا گیت کیوں نہ تھی حالاںکہ اس کی صورت تو کسی مقدس صحیفے جیسی ہے
جسے دیکھ کر یوگی اپنی عبادتیں بھول جائیں
جوگی اپنا راستہ بھول جائیں
لاہوتی لا مکاں کو نہ جائیں
مندروں میں اپنے آپ دیئے جل پڑیں
مندروں میں رکھیں مورتیاں بول پڑیں
کارونجھر کی کور پر مور ناچیں
اور ان کی منتظر ڈیلیں گیت گائیں
پھول اور خوشبو سے بھر جائیں
گلاب اور سُرخ رو ہو جائیں
اسے دیکھ کر شاعر اپنی نظم کا آخری بند پورا کریں
اور مذہبی لوگ اسے دیکھنے پر مقدس کتابوں کو ریل پر ہی رہنے دیں اور اسے تکتے رہیں!
وہ ایسی ہے جسے دیکھ کر میرے من میں لطیف کے یہ دردیلے الفاظ اتر جاتے ہیں کہ
”نانگا ننڈ نہ کن!“
جسے دیکھ کر جوک رد جوک لوگ ایمان لے آئیں

پر وہ اس وقت درد کی سیمفنی بنی ہوئی تھی وہ رو تی تھی اور آکاش پر سورج ٹھہر سا جاتا تھا اور چاند اپنی راہیں بھول جاتا تھا وہ کیوں روتی تھی اس لیے کہ اس وقت اس کا سامنا درد سے تھا اور درد کوئی گیت نہیں ہوتا درد نوحہ ہوتا ہے جو رُلاتا ہے اور آنکھوں کو اشک بار کر جاتا ہے پر اس کورونا کوئی عام رونا نہ تھا اس کو رونا سسئی کے سفر کی ماند تھا جسے پہاڑ اور پتھر بھی رُک رُک کر پوچھتے تھے کہ ”ہم تمہارے لیے کیا کریں؟“

جب سسئی انہیں یہی جواب دیتی تھی کہ ”تم میرے ساتھ چل تو نہیں سکتے پر میرے ساتھ رو تو سکتے ہو؟
اور پھر سسئی انہیں کہتی تھی
”ڈونگر مون سین رو ءِ کڈھی پار پنہوں جا!“
”پتھرو میرے ساتھ رو میرے محبوب کے لیے!“
پتھر سسئی کے ساتھ روتے تھے
اور اس کا رونا پورے ماحول کو اشک بار کر جاتا تھا
اوس سے لیکر بارشیں، پھولوں سے لیکر پتھر سب شال کی گلیوں میں بھیگے بھیگے ہوتے تھے
کیوں کہ اس وقت وہ درد کی سیمفینی بنی ہوئی تھی
پر اب وہ درد سے دور ہو رہی ہے اب وہ ایسی نہیں رہی جس کے لیے بابا فرید کے یہ الفاظ تھے کہ
”درداں دی ماری دلڑی علیل اے!“
دعا ہے کہ وہ اب ایسی کبھی نہ رہے اب درد اس کو کبھی دامن گیر نہ ہوں
اب درد کبھی اس کے پلوں سے بندھے نہ رہیں
اب وہ ہنسے مسکرائے چہچہائے!
اس کے لب مسکرائیں
اس کے ہاتھ نظمیں لکھیں
پیر رقص کریں!
لب اور سرخ ہو
اور لبوں پر گیت ہوں
ایسے گیت جیسے بائبل میں ہیں
ایسے گیت جیسے گیتا میں ہیں
ایسی دعائیں جیسی مقدس کتابوں میں ہیں
اب ہمیشہ وہ ایسی رہی جس کے لیے ایاز نے لکھا تھا کہ
”سیندھ تنھنجی کڈھن میری نہ تھئیے
پھول تنھنجا نہ مر جھائیجن!“


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں